معروف براڈ کاسٹر رضا علی عابدی اپنے دلچسپ انداز میں ریلوے سٹیشن سے روانگی کا احوال بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ میں جس روز کوئٹہ سے چلا رات کو بارش ہو چکی تھی‘ سامنے پہاڑوں پر برف گر چکی تھی اور کرکٹ کے عالمی مقابلوں میں پاکستان کی ٹیم ہندوستان سے ہار چکی تھی۔ میں سٹیشن پر پہنچا تو رات کی جھڑی نے سب کچھ دھو دھلا کر صاف ستھرا کر دیا تھا۔ سٹیشن کی وہی دیکھی بھالی سی‘ جانی پہچانی سی عمارت‘ سامنے بڑے بڑے در‘ لمبا چوڑا برآمدہ‘ اس کے اندر ٹکٹ گھر‘ انتظار گاہیں‘ دفتر اور اپنے بکسوں اور سوٹ کیسوں پر بیٹھے ہوئے مسافر۔ لیکن سب سے پہلے‘ سب سے آگے اور سب سے نمایاں پتھر کی بڑی سی تختی پر کھدے ہوئے ان ایک سو چون ریلوے ملازموں کے نام جو 31 مئی 1935ءکے زلزلے میں مر گئے تھے۔ اگرچہ کوئٹہ ایکسپریس ابھی پلیٹ فارم پر لگی نہیں تھی مگر سٹیشن پر خوب چہل پہل تھی‘ میں بہت عرصے بعد ریل گاڑی میں بیٹھنے جا رہا تھا تو جی چاہا کہ اس سفر کے نخرے اٹھاﺅں چنانچہ ہلکا سا سامان ہونے کے باوجود ایک قلی کر لیا۔ ”لو بھئی! میرا سامان اٹھاﺅ“ اور کوئی چیز ادھر ادھر نہ ہو جائے اس لئے احتیاطاً قلی پر یہ جتا دیا ”دیکھنا! ایک نگ ہے۔“ وہ میرا سوٹ
کیس سر پر رکھے آگے آگے چلا‘ مشقت کرتے کرتے اس کے بال سفید ہو چلے تھے اور سوکھی ہوئی ٹانگیں سیاہ پڑنے لگی تھیں۔ قلی کی سرخ وردی اور بازو پر بندھی لائسنس کی پٹی سے نگاہ ہٹی تو وہ دکان نظر آئی جہاں سے میں نے ریل کے اپنے ہر سفر میں کچھ نہ کچھ خریدا ضرور اور وہ تھا ریلوے بک سٹال ’گوشہ¿ ادب‘ میں نے سوچا کہ لمبے سفر پر جا رہا ہوں ایک ٹائم ٹیبل خرید لوں‘ میں لپک کر وہاں پہنچا۔ مجھے وہ دن یاد تھے جب ریلوے بک سٹالوں پر منٹو‘ بیدی‘ عصمت چغتائی‘ کرشن چندر اور شفیق الرحمن کی کتابیں چنی ہوتی تھیں یہی نہیں لوگ انہیں خریدتے بھی تھے۔ اس دن بک سٹال پر کھڑے ہوئے نور محمد صاحب سے میں نے پوچھا کہ کیا لوگوں نے کتابیں پڑھنے کی عادت ترک کر دی؟ کہنے لگے کہ ہرگز نہیں‘ لوگ اب بھی پڑھتے ہیں ضرور پڑھتے ہیں۔ میں نے ٹائم ٹیبل مانگا‘ وہ اب کوئی نہیں
خریدتا وہ ان کے پاس نہیں تھا۔ لوگوں نے میرے ہاتھ میں مائیکرو فون دیکھا اور میری آواز پہچانی تو جسے میں راز سمجھ بیٹھا تھا وہ فوراً کھل گیا‘ لوگ میرے گرد جمع ہو گئے‘ مشکل یہ تھی کہ وہ چاہتے تھے کہ مجھ سے باتیں کریں‘ میں چاہتا تھا کہ میں ان سے گفتگو کروں۔ میرے گرد لوگوں کا مجمع بڑھتا جا رہا تھا‘ ہر شخص میری مدد کرنا چاہتا تھا‘ ہر ایک مجھے چائے پلانا چاہتا تھا‘ گاڑی پلیٹ فارم پر لگ چکی تھی اور اس کے چھوٹنے کا وقت قریب تھا۔ سٹیشن کے لاﺅڈ سپیکر پر مسلسل اعلان ہو رہا تھا کہ مسافر حضرات سے درخواست ہے کہ پلیٹ فارم ٹکٹ ضرور خریدیں‘ ٹکٹ نہ ہونے کی صورت میں جرمانہ ہو سکتا ہے۔ آخر گارڈ نے ہری جھنڈی دکھا دی‘ گاڑی آہستہ آہستہ سرکنے لگی‘ جو لوگ گلے مل سکتے تھے وہ ملے باقی نے ہاتھ ملائے۔ گاڑی چھوٹنے پر مجھے راولپنڈی کے سٹیشن کا ایک منظر یاد آ گیا‘ غالباً کوہاٹ جانے والی ٹرین تھی کچھ لوگ گاڑی کے اندر تھے اور کچھ باہر کھڑے باتیں کر رہے تھے‘ جیسے ہی گاڑی چلی اندر والے لوگ کود کر باہر آ گئے اور باہر کھڑے ہوئے مسافر چند قدم ٹرین کے ساتھ چلے اور پھر اس میں سوار ہو گئے۔ اترنے والوں کی شان یہ تھی کہ جب ان کا ڈبا کافی آگے نکل کر پلیٹ فارم کے خاتمے کے قریب پہنچا تب اترے۔ اس تاخیر میں پتہ نہیں کون سی تعمیر کی صورت تھی۔