عرب عوام اور حکمران

عرب ممالک کے لوگ سڑکوں پر آ کر اسرائیل کے خلاف احتجاج کریں یا مطلق العنان حکمرانوں کے ڈر سے خاموش رہیں ایک دنیا جانتی ہے کہ انکی ہمدردیاں ہمیشہ سے فلسطینی عوام کیساتھ رہی ہیں۔ دو ماہ سے بلا توقف ہونیوالی اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں غزہ کی مکمل تباہی اور سولہ ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کی شہادتوں نے پورے عالم اسلام کو شدید بے چینی اور اضطراب میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ عرب دنیا سے باہر تمام اسلامی ممالک میں اسرائیل اور امریکہ کے خلاف بھرپور احتجاج کیا جا رہا ہے۔ دنیا بھر میں رائے عامہ کی اکثریت امریکہ اسرائیل گٹھ جوڑ کے خلاف ہے۔ امریکہ اور یورپی ممالک میں بھی لوگوں نے لاکھوں کی تعداد میں اس سفاکیت کے خلاف احتجاج کرتے ہوے جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف پیش کی جانے والی کئی قراردادوں کو امریکہ نے ویٹو کر کے اسرائیل کے جنگی جنون کو انگیخت دی ہے۔ امریکہ ایک طرف اسرائیل کو دھڑا دھڑ اسلحہ فراہم کر رہا ہے اور دوسری طرف بہ آواز بلند یہ کہہ رہا ہے کہ ا س نے اسرائیل پر دباﺅ ڈال کے مصر اور غزہ کی سرحد پر واقع رفاح کی چیک پوسٹ کوکھلوا دیا ہے تا کہ ہر روز امداد لیکر جانے والے سینکڑوں امدادی ٹرکوں کی آمدو رفت جاری رہے۔ مغرب کے وضع کردہ لبرل ورلڈ آرڈر کو طاقت کے بھرپور استعمال کے علاوہ اخلاقی برتری کی بھی شدید ضرورت ہے۔ اس عالمی نظام کی بقا کےلئے ضروری ہے کہ مفلو ک الحال ممالک کے عوام کو یقین دلایا جا ئے کہ مغربی ممالک صرف معاشی اور عسکری لحاظ سے ہی برتر نہیں بلکہ اخلاقی اعتبار سے بھی بلند و بالا ہیں۔ مغربی حکمران جانتے ہیں کہ انہوں نے اگر High Moral Ground کھو دیا تو پھر وہ بہت جلد پوری دنیا پر حکومت کرنے کا اختیار بھی کھو دیںگے‘امریکہ اسی لئے اسرائیل کو تسلسل کے ساتھ آتشیں اسلحہ فراہم کرنے کے علاوہ غزہ کے تباہ حال لوگوں کے لئے ٹسوے بہانا بھی ضروری سمجھتا ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں‘ امریکہ اسرائیل کو تحفظ دینے کےلئے 75 برس سے یہی کچھ کر رہا ہے مگر فلسطینی عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم سے جس دیدہ دلیری کیساتھ عرب حکمرانوں نے چشم پوشی کی ہے وہ اس بحران کا ایک نہایت گھناﺅنا پہلو ہے۔ غزہ میں 65 دنوں سے جاری خونریزی کے دوران عرب دارلحکومتوں میں ہونےوالے واقعات کا جائزہ لیا جائے توچند چشم کشا حقائق سامنے آ تے ہیں۔ بدھ چھ دسمبر کے دن بحرین کے دارلخلافے مناما میں امریکی‘ یورپی اور عرب ممالک کے فوجی افسروں کے مابین معمول کی سالانہ کانفرنس ہوئی جس میںمشرق وسطیٰ کے دفاعی معاملات کا جائزہ لیا گیا۔امریکی میڈیا کے مطابقRitz Carlton ہوٹل کے شاندار ہال میں ہونیوالی اس کانفرنس سے چار میل دور دو ڈھائی سو لوگوں کا ہجوم اسرائیل کے خلاف نعرے لگا رہا تھا۔ یہ لوگ بحرین میں اسرائیل کے سفارتخانے کو بند کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے مگر انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ ان سے کچھ فاصلے پر انکے حکمران امریکہ کو اسرائیل کیساتھ اپنے تعاون کی یقین دہانی کرا رہے تھے۔دی نیو یارک ٹائمز کی سات دسمبر کی خبر کے مطابق اس روز بحرین کے کراﺅن پرنس سلمان بن حماد الخلیفہ نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوے دو ماہ قبل حماس کے اسرائیل پر حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کر کے حاضرین سے خوب داد سمیٹی۔ اخبار کے مطابق عرب حکمران جب اپنے عوام کی اسرائیل سے نفرت کا تقابل اپنی معاشی ترقی سے کرتے ہیں تو انہیں رائے عامہ کا ساتھ دینے میں سراسر نقصان نظر آتا ہے‘ اسرائیل سے دوستانہ تعلقات قائم کرنےوالے عرب حکمرانوں کو نہ صرف امریکہ کی طرف سے ایران کے خلاف تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی جا تی ہے بلکہ دوستی کے اس پیکج میں امریکہ کی ملٹی نیشنل کمپنیوں تک رسائی کی سہولت بھی میسر ہوتی ہے۔ بحرین‘ عرب امارات اور مراکش نے انہی مراعات کو مد نظر رکھتے ہوے 2020 میں اسرائیل کیساتھ ابراہام معاہدہ کیا تھا۔ مصر اور اردن پینتالیس برس قبل اسرائیل سے امن معاہدے کر چکے تھے۔ ان تمام معاہدوں کو مغربی ممالک نے نہ صرف سراہا تھا بلکہ عرب حکمرانوں کو ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی تھی۔ یہ دوستی دو خطوں کے عوام کے درمیان نہیں بلکہ یہ مشرق وسطیٰ کے شاہی خاندانوں اور مغربی حکمرانوں کے درمیان ہے۔ اس تعلق کی مثال ندی کے دو کناروں کی مانند ہے جس میں دو خطوں کی اشرافیہ ایک کنارے پر اور عوام الناس دوسرے کنارے پر ہیں۔ اس عجیب اخلقت تعلق میں مغربی حکمرانوں کو اپنے عوام کی مکمل تائیدو حمایت حاصل ہے جبکہ عرب حکمران اپنے عوام کے جذبات اور تمناﺅں سکو نظر انداز کرتے ہوے اندھا دھند اپنے ذاتی مفادات کا تعاقب کر رہے ہیں۔ رٹز کارلٹن ہوٹل میں مغربی ممالک کے فوجی افسروں سے خطاب کرتے ہوے کراﺅن پرنس حماد الخلیفہ نے یہ بھی کہا کہ غزہ پر اسرائیل کی بمباری ناقابل برداشت ہے مگر امن صرف امریکہ ہی قائم کر سکتا ہے۔