جنرل عاصم منیر ایک ایسے وقت میں امریکہ کا دورہ کر رہے ہیں جب بائیڈن انتظامیہ کئی محاذوں پر الجھی ہوئی ہے۔ خارجی معاملات میں غزہ اور یوکرین کی جنگوں کے علاوہ اسے ہند بحرالکاحل (انڈو پیسیفک) کے علاقے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ اور اسکی جارحانہ حکمت عملی کا بھی سامنا ہے۔ ملک کے اندر ری پبلکن پارٹی کی شدید مخالفت کی وجہ سے قانون سازی تعطل کا شکار ہے۔ باوجود کوشش کے صدر بائیڈن یوکرین کو جنگی ہتھیاروں کی ترسیل جاری رکھنے میںکامیاب نہیں ہوئے۔ امریکہ پاکستان تعلقات کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ افغانستان سے انخلاءکے بعد واشنگٹن کو اسلام آباد کے عسکری تعاون کی ضرورت نہیں رہی۔ ایسے میں پاکستان کے آرمی چیف کو امریکہ آنے کی دعوت دینے کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں۔ کیا افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں کے ٹھکانے امریکہ کے لئے باعث تشویش ہیں۔ اس سوال کا جواب اس لئے نفی میں ہے کہ امریکہ کو زیادہ تر خدشات داعش یا ISISکی اس شاخ سے ہیں جسے ISIS خراسان کہا جاتا ہے۔ کابل حکومت نے اس تنظیم کواس حد تک قابو میں رکھا ہوا ہے کہ گذشتہ کئی ماہ سے یہ روپوش ہے۔ تحریک طالبان پاکستان نے کئی برسوں سے امریکی مفادات کو نقصان نہیں پہنچایا اس لئے بائیڈن انتظامیہ اس
سے کوئی غرض و غایت رکھتی ہے اور نہ ہی افغان طالبان سے انکے خلاف کاروائی کا مطالبہ کرتی ہے۔ نظر یہی آ رہا ہے کہ واشنگٹن‘ اسلام آباد اور کابل کے تعلقات میں دخل اندازی سے گریز کر رہا ہے۔موجودہ حالات میں امریکہ کو اگر پاکستان سے کسی تعاون کی ضرورت ہو سکتی ہے تو وہ افغان مہاجرین کے انخلاءکا مسئلہ ہے۔ اسوقت پاکستان میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے افغان باشندے مقیم ہیں جو امریکہ جانے کے منتظر ہیں۔ انکے ایمی گرینٹ ویزوں کے اجرا میں تاخیر کی وجہ سے امریکہ چاہتا ہے کہ انہیں واپس افغانستان نہ بھیجا جائے کیونکہ وہاں انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ امریکہ کیونکہ پاکستان کی ٹیکسٹائل مصنوعات کی سب سے بڑی مارکٹ ہے اور پھر آئی ایم ایف سے کاروباری تعلقات میں پاکستان کو امریکہ کے تعاون کی ضرورت بھی رہتی ہے اس لئے چند ہزار افغان مہاجرین کو کچھ عرصے کے لئے پناہ دینا ایسا معاملہ ہے جسے معمول کی سفارتی گفتگو کے ذریعے بھی حل کیا جا سکتا ہے۔ البتہ چین کیساتھ پاکستان کے تعلقات اور سی پیک میں پیش رفت ایسے معاملات ہیں جن کے بارے میں سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ تفصیل سے جاننا چاہتا ہے۔ اسی لئے واشنگٹن میں جنرل عاصم منیر اور آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کی سیکرٹری آف سٹیٹ سے طویل ملاقات ہوئی ہے۔ پاکستان کی ان دو طاقتور شخصیتوں کی انٹونی بلنکن سے ملاقات کی تصویر انٹرنیٹ پر گردش کر رہی ہے۔دیکھا جائے تو کسی بھی میزبان آرمی چیف کا سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ جانا ایک غیر معمولی اقدام ہے۔ خارجہ معاملات کے بارے میںپاکستان کا یہ مﺅقف سب پر عیاں ہے کہ وہ دونوں بڑی طاقتوں سے اپنے تعلقات میں توازن رکھنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف جنرل عاصم منیر پاکستان کی معاشی حالت کو مستحکم کرنے کے لئے ایک فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ خلیجی ممالک نے آرمی چیف کی اکنامک ڈپلو میسی کی وجہ سے پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے کرنیکا یقین دلایا ہے۔ ا ان کوششوں کے نتیجے
میں پاکستان معاشی گرداب سے نکلتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ روپے کی قیمت مستحکم ہونے کے علاوہ سٹاک مارکیٹ میں بھی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو رہا ہے۔ امریکی میڈیا کے مطابق واشنگٹن میں حکام بالا سے ملاقاتوں میں جنرل عاصم منیرنے پاکستان سے تجارت بڑھانے اور سرمایہ کاری کے امکانات پربھی بات چیت کی ہے۔ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ویب سائٹ کے مطابق امریکہ نے 2021 میں پاکستان سے پانچ ارب ڈالر کی مصنوعات در آمد کی ہیں۔ اس اعتبار سے امریکہ پاکستان کی سب سے بڑی ایکسپورٹ مارکیٹ ہے۔ گذشتہ سال امریکہ نے پاکستان میں اپنی سرمایہ کاری میں پچاس فیصد اضافہ کیا ہے۔ پاکستان کی کیمیکل‘ انرجی‘ زراعت‘ ٹرانسپورٹ اور کمیونیکیشن انڈسٹریز میںامریکہ سب سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے والا ملک ہے۔ امریکی میڈیا کے مطابق واشنگتن پاکستان میں انتخابات کے بعد متوقع سیاسی استحکام کی صورت میں تجارتی تعلقات کوفروغ دینے میں پیش رفت کر سکتا ہے۔ جنرل عاصم منیر کے دورے کے نتیجے میں نہ صرف امریکہ پاکستان تعلقات میں بہتری کے امکانات روشن ہوئے ہیںبلکہ پاکستان ایک مرتبہ پھر جنوب ایشیا کی سیاست میں ایک اہم ملک کی حیثیت سے سامنے آیا ہے۔