قوموں پر جب برا وقت آتا ہے تو ایسے نڈر اور بے خوف لیڈر سامنے آجاتے ہیں جو سر ہتھیلی پر رکھ کر دشمنوں کو للکارتے ہیں۔یحییٰ سنوار چار عشروں سے فلسطین کی آزادی کی جنگ لڑ رہا ہے۔ بیس برس اسرائیل کے عقوبت خانوں میں گذارنے کے بعدجب وہ 2011 میں رہا ہوا تو اس نے اپنے دوستوں سے کہا کہ ” تمہاری آزادی میری ذمہ داری ہے“ اس نے زندگی بھر یہ ذمہ داری نبھائی اور آ ج بھی وہ غزہ کی سرنگوں میں فلسطین کی آزادی کی جنگ لڑ رہا ہے۔ بارہ برس قبل اسکی رہائی سے پہلے اسرائیل کی خفیہ ایجنسی کے جیلخانہ جات ڈویژن کے سابقہ سربراہ Yuval Bitton نے اسکی رہائی کی سخت مخالفت کی تھی ۔ اس نے حکومت سے کہا تھا کہ یہ شخص میدان جنگ کا نقشہ تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یووال بٹون نے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ وہ طویل عرصے تک یحییٰ سنوار کی حرکات و سکنات کا جائزہ لیتا رہا اور اسے معلوم تھا کہ وہ نہ صرف جیل کے اندر فلسطینی قیدیوں کا لیڈر تھا بلکہ وہ جیل میں ہوتے ہوئے بھی غزہ کے حالات پر اثر انداز ہوتا تھا‘ آج غزہ کی فضاﺅں پر چھائے ہوئے اسرائیلی ہیلی کاپٹر ہر روز ہزاروں کی تعداد میں ایسے پمفلٹ پھینک رہے ہیں جن پر لکھا ہوتا ہے کہ جو کوئی یحییٰ سنوار کا پتہ بتائے گا اسے چار لاکھ ڈالر انعام دیا جائیگا ۔شمالی غزہ کو تاخت و تاراج کرنے کے بعد اسرائیل کے کمانڈو آج کل جنوبی حصے کے بڑے شہر خان یونس میں حماس کی قیادت کو تلاش کر رہے ہیں‘ جانبازوں کی اس صف میں اسرائیل کا اصل مرد مطلوب یحییٰ سنوار ہے۔ جب تک فلسطین کی جنگ آزادی کا یہ دلیر اور سر کش جنگجو گرفتار یا شہید نہیں ہوتا اس وقت تک بنجامن نتن یاہو فتح کا اعلان نہیں کر سکتا۔گذشتہ دس ہفتوں میںامریکہ اقوام متحدہ میں پیش ہونیوالی جنگ بندی کی دو قراردادوں کو ویٹو کر چکا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ اس وقت اقوام عالم کی پر زور مزاحمت کو نظر اندازکرتے ہوئے اسرائیل کی حمایت کر رہی ہے۔اب تو برطانیہ اور فرانس جیسے اتحادی بھی جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کرنے میں امریکہ کا ساتھ نہیں دے رہے‘ دوسری طرف اسرائیل اگر حماس کی قیادت کو گرفتار کئے بغیر جنگ بندی کرتا ہے تو یہ شکست کا اعتراف کرنے کے مترادف ہو گا‘ اسرائیلی قیادت بلا توقف یہ کہتی رہتی ہے کہ غزہ کی جنگ حماس کے خاتمے تک جاری رہیگی۔ غزہ میں بیس ہزارسے زیادہ فلسطینیوں کی شہادت اور تین چوتھائی کے قریب عمارتوں کی تباہی کے بعد بھی اسرائیل حماس کے چوٹی کے لیڈر گرفتار نہیں کر سکا۔اس جنگ کے خاتمے کےلئے نتن یاہو کو اپنے عوام کو یہ بتانا پڑیگا کہ اس نے بارہ اکتوبر کو اسرائیل پر ہونیوالے حملے کے ماسٹر مائنڈ کو گرفتار یا ہلاک کر دیا ہے‘ امریکہ جس طرح دس برس تک اسامہ بن لادن کا تعاقب کرتا رہا اسرائیل آج کل اسی طرح یحییٰ سنوار کی تلاش میں سرگر داں ہے۔ بن لادن تو پاکستان اور افغانستان کے طول و عرض میں کہیں بھی پناہ لے سکتا تھا مگر یحییٰ سنوار تو غزہ کی پچیس میل لمبی اور ساڑھے سات میل چوڑی پٹی سے باہر نہیں جا سکتا‘ اس نے آتش و آہن برساتے ہوئے ٹینکوںاورطیاروںسے تباہ ہونیوالی عمارتوں کے نیچے چھپی سرنگوں ہی میں پناہ لینی ہے اسرائیل اور امریکہ دونوں جانتے ہیں کہ یحییٰ سنوار موت کو گلے لگا لے گا مگر وہ سفید جھنڈا نہیں لہرائے گا۔ امریکی میڈیا کے مطابق یحییٰ سنوار نے 2021 میں اسرائیل حماس جنگ بندی کے بعد لائیو ٹیلیویژن پر تقریر کرتے ہوئے کہا تھا وہ کچھ دیر بعد غزہ کی گلیوں سے گذرتا ہوا اپنے گھر جائیگا۔ اسرائیل اگر اسے ہلاک کرنا چاہتا ہے تو کر لے اور پھر ایک دنیا نے دیکھا کہ وہ لوگوں کے ساتھ ہاتھ ملاتا اور تصویریں بناتا ہوا جا رہا تھا۔ باون سالہ یحییٰ سنوار اپنی تقریروں میں فلسطینیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ انہیں ہر وقت اپنی بندوقیں‘ چھریاں‘ چاقواور ہتھوڑے دشمن سے مقابلے کے لئے تیار رکھنے چاہئیں۔اسکے دوست اور دشمن اسے ایک ایسے نظریاتی لیڈر کے طور پر جانتے ہیں جس نے آج تک اسرائیل کو تسلیم ہی نہیں کیا بلکہ ان فلسطینی لیڈروں سے ہاتھ تک نہیں ملایا جنہوں نے 1993 کے اوسلو معاہدے پر دستخط کئے تھے۔ آج یحییٰ سنوار جیسے دلیر اور شوریدہ سر مرد میدان نے فلسطین کی جنگ آزادی کو ایسے مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں اقوام عالم با آواز بلند فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کب تک عالمی رائے عامہ کی مخالفت جاری رکھ سکتے ہیں۔
اشتہار
مقبول خبریں
مشرق وسطیٰ‘ یحییٰ سنوار کے بعد
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی
ڈونلڈ ٹرمپ‘ ناکامی سے کامیابی تک
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی
کیا ٹرمپ کا امریکہ ایک مختلف ملک ہو گا
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی