رضا علی عابدی سفر کی داستان کیساتھ دلچسپ انداز میں مسائل کی نشاندہی بھی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ گاڑی چھوٹنے پر مجھے راولپنڈی کے اسٹیشن کا ایک منظر یاد آگیا غالباً کوہاٹ جانے والی ٹرین تھی کچھ لوگ گاڑی کے اندر تھے اور کچھ باہر کھڑے باتیں کر رہے تھے‘ جیسے ہی گاڑی چلی‘ اندر والے لوگ کود کر باہر آگئے اور باہر کھڑے ہوئے مسافر چند قدم ٹرین کے ساتھ چلے اور پھر اس میں سوار ہوگئے اترنے والوں کی شان یہ تھی کہ جب ان کا ڈبا کافی آگے نکل کر پلیٹ فارم کے خاتمے کے قریب پہنچا تب اترے اس تاخیر میں پتہ نہیں کون سی تعمیر کی صورت تھی‘ کوئٹہ کا اسٹیشن پیچھے رہ گیا‘ وہی اسٹیشن جس کی عمارت 1935ءکے زلزلے میں ڈھے گئی تھی اور پھر28 اکتوبر 1939ءکو جس کی موجودہ عمارت کھولی گئی تھی کوئٹہ ایکسپریس بلوچستان کے پہاڑوں سے سندھ کے ریگ زاروں میں اترنے کیلئے درہ بولان کی طرف بڑھنے لگی آگے بل کھاتی ریلوے لائن نظرآنے لگی جو پورے ا یک سو دس سال پہلے1886ءمیں ڈالی گئی تھی‘ اس وقت مرزا محمد ہادی رسوا یاد آئے ہم یہ تو جانتے ہیں کہ انہوں نے امراﺅ جان ادا جیسی یادگار کتاب لکھی مگر اب کسے یاد ہوگا کہ جب یہ ریلوے لائن بچھائی جارہی تھی مرزا صاحب کی ملازمت کوئٹہ میں تھی وہ روڈ کی انجینئرنگ کالج سے سند لے کر آئے تھے اور اس ریلوے لائن کے سروے میں شریک تھے‘ میں اپنے تنہا ڈبے میں بیٹھا یہ سوچ کر مسکرا رہا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی اور ایک صاحب داخل ہوئے ‘بلوچ سرداروں جیسی داڑھی مونچھیں اور ویسی ہی بارعب شخصیت بولے‘ اور ذرا سی لیکن بھلی لگنے والی لکنت کے ساتھ بولے‘ میرا نام بجارانی ہے‘ میرناصر بجارانی‘ بس پھر باتوں کا سلسلہ چل نکلا‘ بجارانی صاحب کا تعلق بااثر اور صاحب حیثیت گھرانے سے ہے لیکن سفر ریل گاڑی سے کرتے ہیں البتہ ریل کی حالت سے خوش بھی نہیں اس روز سخت شکایت کرنے لگے کہ ریلوے والے اپنے مسافروں کو سہولتیں نہیں دیتے‘ اپنے مخصوص لہجے میں بولے‘ پاکستان بننے کے بعد ریلوے کے محکمے پر توجہ نہیں دی گئی‘ کرائے بڑھادیئے ہیں مگر سہولتیں ناپید ہیں‘ غضب یہ ہوا کہ اس شعبے میں بھی بددیانتی آگئی اور ترقیاتی بجٹ کی بڑی بڑی رقمیں بدنیتی کی نذر ہوگئیں اب آپ باتھ روم میں جایئے وہ غلیظ ہے‘ تولیہ اور صابن نہیں ہے کچھ بھی نہیں ہے۔ میں نے کہاکہ پھر اس کا حل کیا ہے؟ کہنے لگے ریل گاڑی ٹھیکے داروں کو دے دیں اسے پرائیویٹ کردیں جیسے لاہور‘ فیصل آباد سیکشن دیا تھا کنٹریکٹر نے گاڑی اچھی چلائی بہت آرام تھا گاڑیاں صاف ستھری ہوگئی تھیں اور وقت پر چلتی تھیں ٹھیکے دار کو بھی پیسے مل رہے تھے ریلوے کو بھی مل رہے تھے‘ میں نے کہاکہ بجارانی صاحب آپ کی ریل گاڑیاں اب بھی سستی ہیں کہنے لگے سکھر کا کرایہ چار سو اسی روپے ہے میں ایک ہزار روپے دینے کیلئے تیار ہوں لیکن ریلوے والے مجھے سہولتیں تو دیں آپ اسٹیشنوں کی حالت دیکھیں انتظار گاہیں بے حد گندی ہیں مجبوراً مجھے وی آئی پی لاﺅنج استعمال کرنی پڑتی ہے۔بجارانی صاحب باتیں کرتے جاتے تھے اور کسی فوجی پلٹن کے اعلیٰ افسر کی چھڑی اپنی ہی ہتھیلی پر مارتے جاتے تھے‘ اتنے میں دروازے پر دوسری دستک ہوئی یہ بجارانی صاحب کے دوست ملک غلام محمد وڑائچ تھے جو سڑکوں کے ٹھیکے دار ہیں وہ ریلوے سے خفا اور اسکے بعض حکام سے ناراض تھے‘ میں نے وڑائچ صاحب سے پوچھا کہ ریلوے کے حالات خراب کیوں ہیں؟ خالص پشتو لہجے میں بولے ملازم اپنے آپ کو ریلوے کافرد نہیں سمجھتے اس کی حالت ٹھیک نہیں بناتے انہیں تو اندازہ بھی نہیں کہ غریب اپنے زیور بیچ کر ٹکٹ خریدتے ہیں خود افسران مالدار ہوتے جاتے ہیں مجھ سے بہتر آپ سمجھتے ہیں‘ جی چاہا کہ ان سے کہوں کہ کیا خاک سمجھتا ہوں‘ یہ تو میرے سفر کا پہلا دن ہے لاہور تک پہنچونگا تو سمجھونگا مگر پھر یہ ہواکہ ایک لاہور ہی کیا میں کلکتہ تک گیا ہم فرسٹ کلاس میں بیٹھے تھے اس اعلیٰ درجے کے مسافروں کا شاید خاص خیال رکھا جاتا ہے۔
اشتہار
مقبول خبریں
پرانے لاہور کا حال
آج کی بات
آج کی بات
ٹرین کا سفر
آج کی بات
آج کی بات
بات سے بات نکالنا
آج کی بات
آج کی بات
خدمت کا جذبہ
آج کی بات
آج کی بات
دوستوں کی اہمیت
آج کی بات
آج کی بات
مقصد کا حصول
آج کی بات
آج کی بات
ہوائی جہاز کے انجینئر کی تلاش
آج کی بات
آج کی بات