2023ء:ایک پر تشدد سال

دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی بے چینی‘ بد امنی اور انتشار کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں‘ان میں سے ہر وجہ کی اپنی توجیح‘ تناظر ‘ تفصیل اور دلائل ہو سکتے ہیں۔ ان سب پر کسی ایک نشست میں بات اس لئے ممکن نہیں کہ ان میں سے ہر ایک پر درجنوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ گذشتہ سال عالمی سیاست اور بیشتر ممالک کی داخلی سیاست نے جس سرعت سے رنگ بدلا ہے اس نے ایک مخصوص فکری رویے کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے ۔ امریکی دانشور اب اس حقیقت کو تسلیم کر تے ہیں کہ گذشتہ تین دہائیوں میں پیدا ہونیوالی نسل مستقبل کی سیاست ‘ سماج اور بین الاقوامی تعلقات پر گہرے اثرات مرتب کرے گی۔ یہ نتیجہ کسی دانشورانہ مکالمے سے اخذ نہیں کیا گیابلکہ کچھ ایسے سرویز شائع ہوئے ہیں جو یہ خبر دے رہے ہیں کہ نوجوان نسل نہ صرف اپنے بزرگوں سے نہایت مختلف انداز میں سوچتی ہے بلکہ وہ اپنے ملک کو اپنی مرضی کی سمت میں لے جانے کا ارادہ بھی رکھتی ہے۔ امریکی جامعات میںغزہ میں جاری وحشیانہ بمباری کے خلاف جو غم و غصہ پایا جاتا ہے اس نے ہرتعلیمی ادارے میں طالب علموں کو واضع طور پر دو دھڑوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ان دھڑوں کی باہمی کشمکش نے اب میڈیا کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ بلاشبہ امریکی میڈیا خاصی حد تک یہودی لابی کے زیر اثر ہے مگر غزہ کی تباہی کے مناظر لوگ سارا دن اپنے موبائل فونز کی سکرین پر دیکھتے رہتے ہیں۔ یہ مناظر ڈھائی ماہ سے مسلسل ہر روز دیکھنے کے بعد اب نئی نسل نے یہ پوچھنا شروع کر دیا ہے کہ انکا ملک کیا کر رہا ہے ۔ اس کی کچھ اخلاقی اقدار بھی ہیں یا نہیں۔ امریکی اچھی طرح جانتے ہیں کہ انکا ملک اپنی بے پناہ دولت اور طاقت کے بل بوتے پر چھوٹے ممالک پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے‘امریکہ میں 1990ءکے بعد پیدا ہونیوالی نسل نے دیکھا ہے کہ جنگ دہشت گردی میں کس طرح کئی اسلامی ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ اس ملک کا با شعورطبقہ یہ جانتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اگر چہ کہ سات اسلامی ممالک میں لڑی گئی مگر اس کا دائرہ 80ممالک تک پھیلا ہوا تھا۔ اس جنگ میں کم از کم ایک ملین مسلمان ہلاک ہوئے اور 38 ملین بے گھر ہوئے۔ ان میں سے زیادہ تر مہاجر کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں اور دو ملین کے لگ بھگ یورپی ممالک میں پناہ لے چکے ہیں۔ شام‘ عراق‘ یمن اور افغانستان کے ان مہاجرین نے مغربی ممالک میں قوم پرست تحریکوں کو تقویت دی ہے جس کی وجہ سے یہ معاشرے تقسیم ہو چکے ہیں۔ آج مغربی دانشور بڑی ڈھٹائی سے یہ اعتراف کرتے ہیں کہ مسلم ممالک کو اگرجنگ دہشت گردی میں تباہ و برباد نہ کیا جاتا تو مسلمان کبھی اپنا گھر بار چھوڑ کر مغرب کا رخ نہ کرتے۔امریکہ اور یورپ کی نئی نسل نے بیس برس تک جنگ دہشت گردی کی خونریزی کا تماشہ اپنی مٹھیوں میں پکڑی ہوئی سیل فونز پر دیکھا اور اب وہ غزہ میں ہر ورز گرنے والے امریکی بموں کی یلغار بھی دیکھ رہی ہے۔ امریکہ کے کار پردازان مملکت شاید اس بات کی پرواہ نہ کرتے کہ ان کی نئی نسل کیا سوچ رہی ہے مگر نیا سال صدارتی الیکشن کا سال ہے اورصدر بائیڈن کئی ماہ سے ہونیوالے سرویز میں مسلسل ڈونلڈ ٹرمپ سے پانچ چھ پوائینٹس پیچھے ہیں۔ ایک ہفتہ پہلے ہونیوالے Siena College اور دی نیویارک ٹائمز کے مشترکہ Opinion Poll کے مطابق اٹھارہ سے انتیس سال کے نوجوانوںمیں 72 فیصدصدر بائیڈن کی غزہ پالیسی کے سخت خلاف ہیں اور اس وجہ سے وہ انہیں ووٹ دینے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ اب قطع نظر اسکے کہ جامعات اور میڈیا میں کیا ہو رہا ہے ڈیموکریٹک پارٹی کو یہ فکر لاحق ہو گئی ہے کہ ان 72 فیصد نوجوانوں کو کیسے واپس اپنے کیمپ میں لایا جائے۔ ڈیموکریٹک پارٹی اچھی طرح جانتی ہے کہ یہی وہ ووٹرز ہیں جنہوں نے 2020ءکے الیکشن میں جوزف بائیڈن کو صدر بنایا تھا۔ اب انہیں واپس لانے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ غزہ میں جنگ بندی کرائی جائے مگر امریکہ کا ہتھ چھٹ اتحادی جس کا نام اسرائیل ہے کئی مرتبہ کہہ چکاہے کہ وہ حماس کے مکمل خاتمے تک جنگ جاری رکھے گا۔ نئے سال کے پہلے دن کی ایک خبر کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم بنجا من نتن یاہو نے غزہ سے ایک بڑی تعداد میں فوجی واپس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ اب Targeted Operations کئے جائیں گے اور دوسری یہ کہ اسرائیل کو اب تک بائیس ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے اور اسکی معیشت کی شرح نمو 3.5 فیصد سے کم ہو کر ایک فیصد رہ گئی ہے۔اور تیسری وجہ یہ کہ امریکہ نے اسرائیل پرغزہ میںقتل عام بند کرنے کے لئے دباﺅ بڑھا دیا ہے۔اس تناظر میں نیا سال غزہ کے لوگوں کے لئے وہ تباہی نہ لائیگا جس کے المناک مناظر دنیا بھر نے رخصت ہونیوالے سال میں دیکھے۔