مثالی کردار

معروف براڈ کاسٹر رضا علی عابدی ریلوے سٹیشن پر قلی سے ہونے والی بات چت کا احوال بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ریلوے اسٹیشن کے سر کردہ قلی کی75 سال عمر ہے‘ اڑتالیس سال سے آتے جاتے مسافروں کا مال اسباب ڈھورہے ہیں‘ اب تک بھاری بھرکم سوٹ کیس اور ٹرنک سر پر اٹھا کر تھیلے اپنی بانہوں میں پرو کر پل کے پار اتر جاتے ہیں ‘اس دن ملے تو آنکھوں میں بلا کی شفقت تھی ‘میں نے حاجی علی محمد صاحب سے پوچھا کہ آپ ریلوے میں کب سے کام کر رہے ہیں؟ جب سے پاکستان بنا ہے‘ اسی وقت سے یہیں کام کر رہا ہوں ‘اسی اسٹیشن پے‘ اور جب سے یہی قلی کا کام کر رہے ہیں‘ جی ہاں اور اس سے پہلے میں نے ہندوستان میں انگریزوں کی ملازمت کی اور دو سال تک ملٹری میں ایم ٹی میں ڈرائیور رہا جس وقت ایٹم بم پھینکا گیا میں اس وقت کلکتہ چھاﺅنی میں کانوائے لے کر کھڑا تھا آٹھ بج کر کچھ منٹوں پر بم گرایا گیا ہمیں آرڈر ملا کر بیک ہو جاﺅ‘ میں نے حاجی صاحب سے پوچھا کہ آپ ڈرائیور تھے چھ جماعتیں پڑھ چکے تھے پھر آپ نے مال ڈھونے کا کام کیوں کیا؟ پاکستان بن گیا تھا کھانے پینے کو کچھ نہ تھا بے روزگاری تھی ایک میرا بچہ تھا‘ ماں باپ بوڑھے تھے بس ان کی خدمت کیلئے یہی روزگار ملا جوکما کے لے گیا‘ سب نے مل جل کر کھا لیا بس‘ اسی طرح میں نے بچے پڑھائے بچوں کی شادیاں کیں‘ تھوڑی سی جائیداد مکان میرے اپنے ہیں اور حج بھی میں نے کیا ہے اسی اسٹیشن کی کمائی پر‘ میں نے کہا کہ اب آپ بہت ضعیف ہوگئے ہیں کام چھوڑ کر اور گھر بیٹھ کر آرام کیوں نہیں کرتے؟ او نئیں جی‘ بچے تو کہہ رہے ہیں کہ آرام کرو‘ مگر میں کہہ رہا ہوں کہ بچوں کو کیوں تکلیف دیں وہ بھی بال بچے دار ہیں ان کے بھی بچے ہیں میں یہاں آتا ہوں چلا جاتا ہوں صبح مسجد میں آجاتا ہوں مسجد کھولتا ہوں اذان دیتا ہوں‘ نماز ادا کرتا ہوں صفائی کرتا ہوں‘ مسجد بھی میں نے پیسہ پیسہ اکٹھا کرکے بنائی ہے یہیں پلیٹ فارم کے اوپر‘ اس کا متولی بھی میں ہوں‘ صفائی وغیرہ کرتا ہوں‘ اس کے بعد مسافروں کے رویے کی بات ہونے لگی ‘کہنے لگے کہ مسافر جوں ہی زبان کھولتا ہے مجھے معلوم ہو جاتا ہے کہ اچھے گھر سے آیا ہے یا برے گھر سے‘ بعض مسافر جھگڑا کرتے ہیں مگر ہم کنی کترا جاتے ہیں ‘کہنے لگے کہ اڑتالیس سال کے دوران میرے خلاف کوئی شکایت درج نہیں ہوئی ‘میں نے پوچھا کہ کبھی ایسے مسافر بھی ملتے ہیں جوتھوڑا سا بوجھ اٹھوا کر بہت سے پیسے دیتے ہوں؟ ایسے بہت ملتے ہیں‘ مجھے یاد نہیں کئی تو ایسے ملتے ہیں جو کہتے ہیں کہ چاچا سامان مجھے دے دو اور پیسے لے لو‘ میں کہتا ہوں کہ نہیں یہ اصول کے خلاف ہے میں جب تک مزدوری کروں گا‘ خدمت سر پر اٹھا کر کروں گا میں نے پوچھا کہ ایسے غریب بھی ملتے ہوں گے جن کی جیب میں پیسے نہیں ہوتے‘ جھٹ بولے‘ وہ بالکل فری یہ تو میرا پیشہ ہے بہت آدمی ایسے ملے جو کہتے ہیں کہ ہمارے پاس پیسہ نہیں میں کہتا ہوں چلو آگے آﺅ بس سمجھوکہ مزدوری مل گئی۔ یہ تھے ملتان اسٹیشن کے تقریباً پچاس سال پرانے قلی حاجی علی محمد‘ اور یہ جو ریلوے اسٹیشن کے باہر تانگے کھڑے رہتے ہیں جو وقت بے وقت مسافروں کو لاتے لے جاتے ہیں میں نے سوچا کہ ذرا ان تانگے والوں سے بھی تو بات کی جائے ‘ ہمیں کہیں جانا تھا ہم نے عبدالغنی کا تانگہ کرائے پر لیا وہ پینتالیس سال سے تانگہ چلا رہے ہیں‘ ملتان کے پرانے باشندے ہیں ہر بات حیرت انگیز طور پر سمجھتے ہیں اور اتنی ہی سمجھ داری سے جواب دیتے ہیں‘ تانگہ ملتان کی سڑکوں پر چل رہا تھا اور میں عبدالغنی کے برابر بیٹھا ان سے باتیں کر رہا تھا نئی نسل کی شکایت کر رہے تھے کہ اس میں اخلاق نہیں ہے اپنے بزرگوں سے بدتمیزی کرتے ہیں ‘میں نے کہا کہ آپ جو اسٹیشن سے سواری اٹھاتے ہیں کرائے وغیرہ پر آپ سے جھگڑا کرتی ہے؟ کہنے لگے کرتی ہے‘ بعض سواری کرتی ہے جو اچھے لوگ ہیں خاندانی لوگ ہیں وہ بڑے اخلاق سے بیٹھتے ہیں‘ محبت سے بیٹھتے ہیں ہم انہیں صحیح پہنچاتے ہیں وہ ہماری مزدوری بھی ہمیں صحیح دیتے ہیں۔