ڈونلڈ ٹرمپ ‘ ایک مختلف امیدوار

گذشتہ ماہ دو ریاستوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ری پبلکن پارٹی کے انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا۔ کولوراڈو اور مین کی ریاستوں نے یہ مﺅقف اختیار کیا کہ سابقہ صدر ری پبلکن پارٹی کا صدارتی امیدوار اس لئے نہیں ہو سکتا کہ اس پر آئین کی چودھویں ترمیم کی تیسری دفعہ کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس ترمیم کے مطابق”ایسا کوئی شخص امریکی حکومت‘ یا کسی بھی ریاست کے‘ سول یا ملٹری عہدے پر تعینات نہیںہو سکتا جس نے پہلے حلف اٹھا کر آئین کی پاسداری کا وعدہ کیا ہو اور پھر ایک بغاوت یا شورش برپا کر کے اسی آئین کو پامال کرنے کی کوشش کی ہویا پھر اس نے باغیوں کی مدد کر کے آئینی حکومت کو ختم کرنے کی کوشش کی ہو“ ڈونلڈ ٹرمپ نے کولوراڈو کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے اورمین کے فیصلے کو منسوخ کرانے کے لیے اسی ریاست کی حکومت سے اپیل کی ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ان اقدامات کے بعد امریکی سیاست میں ٹھراﺅ آ جاتا مگر ایسا نہ ہوا‘ اسکے برعکس ایسا طوفان اٹھ کھڑا ہوا کہ جیسے صدارتی انتخابات اسی مہینے ہورہے ہوں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ بتیس دوسری ریاستوں نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ہونے کے معاملے پر فیصلہ کرنے کا اعلان کیا ہے ان ریاستوں نے یہ فیصلہ اس لیے بہت جلد کرناتھا کیونکہ پندرہ جنوری سے ریاست آیووا کے کاکس میں ووٹنگ شروع ہو رہی ہے۔ اب سپریم کورٹ نے ڈونلڈ ٹرمپ کی اہلیت کے مقدمے پر فیصلہ دینے کا اعلان کیا ہے تو تمام ریاستوں نے اس مسئلے پر اپنے فیصلوں کو مﺅخر کر دیا ہے۔ ڈیمو کریٹک پارٹی عدالت عظمیٰ سے ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف کسی فیصلے کی اس لیے امید نہیں رکھتی کہ اس عدالت میں چھ قدامت پسند اور تین لبرل جج متعین ہیں اور ان چھ میں سے تین جج ڈونلڈ ٹرمپ کے تعینات کے ہوئے ہیں۔ اس تناظر میں امریکی نیوز میڈیا میں سابقہ صدر کے مخالفین یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ ایک سیاسی معاملہ ہے اور اس کا فیصلہ ری پبلکن پارٹی کو کرنا چاہیئے نہ کہ عدالت عظمیٰ کو‘ یہ دانشور اپنے مﺅقف کی اثابت میں جو دلائل پیش کرتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ گذشتہ سال کانگرس کی ایک سیلیکٹ کمیٹی طویل تحقیقات کے بعد یہ فیصلہ سنا چکی ہے کہ چھ جنوری دو ہزار اکیس کو کیپیٹل ہل پر حملہ ڈونلڈ ٹرمپ کے بنائے ہوئے منصوبے کے مطابق ہوا تھااس لیے اس پر چودھویں ترمیم کے سیکشن تین کا اطلاق ہوتا ہے اس اعتبار سے اس کا نام ری پبلکن پارٹی کے
 انٹرا پارٹی الیکشن کے بیلٹ پیپر پر نہیں ہونا چاہئے۔ اس کے جواب میں ڈونلڈ ٹرمپ کے حمایتی یہ کہہ رہے ہیں کہ گذشتہ برس کی کانگرس کمیٹی ڈیموکریٹک پارٹی نے بنائی تھی اس لیے اسکا فیصلہ یک طرفہ تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کئی مرتبہ کہہ چکے ہیںکہ انکی اہلیت کے حتمی فیصلے کا حق صرف عدالت عظمیٰ کو حاصل ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کی ٹرمپ کی اہلیت کے خلاف دوسری دلیل یہ ہے کہ ٹرمپ کوئی عام امیدوار نہیںبلکہ ایک ایسا مختلف قسم کا امیدوار ہے جو پہلے بھی کھلم کھلا ّآئین کی خلاف ورزی کر چکا ہے اور اب بھی وہ دوسری مدت صدارت حاصل کرنے کے بعد ریاستی اداروں کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرنے کے عزم کا اظہار کر چکا ہے۔ ا س مختلف قسم کے امیدوارکے خلاف دلائل دیتے ہوے ڈیمو کریٹک پارٹی کے دانشور یہ کہہ رہے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلے بھی کسی انتخابی نتیجے کو تسلیم نہیں کیا اور اب اگر وہ اس سال کے صدارتی انتخاب میںفتح یاب نہیں ہوتا تو وہ نتائج کو مسترد کر کے ملک کو عدم استحکام سے دوچار کر دے گا۔ اس حوالے سے یہ مثال دی جا رہی ہے کہ دو ہزار سولہ میں ہلری کلنٹن کے خلاف ڈونلڈ ٹرمپ نے کم از کم دو لاکھ کم ووٹ لیے تھے مگر الیکٹورل کالج میں زیادہ سیٹیں حاصل کرنے کی وجہ سے وہ
 صدر منتخب ہو گیا تھا۔ یہ کامیابی حاصل کرنے کے باوجود اسنے انتخابی نتائج پر اس لیے اعتراض کیا تھا کہ اسے حاصل شدہ ووٹوں کی تعداد کم تھی۔ ری پبلکن پارٹی کے دانشور فاکس نیوز چینل پر مسلسل اس مﺅقف کا اظہار کرتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا نام اگر بیلٹ پیپر سے ہٹا دیا گیا تو امریکی عوام اپنے سیاسی نظام پر اعتماد کھو دیگی اور اس کے بعد ری پبلکن پارٹی اپنے زیر انتظام ریاستوں میں انتقامی سیاست کرنے پر مجبور ہو جائیگی۔ اس کے جواب میں ڈیموکریٹک پارٹی کا کہنا ہے کہ ٹرمپ پر اس لیے چودھویں ترمیم کا اطلاق ہوتا ہے کہ وہ جمہوریت پر یقین نہ رکھنے والاایک ایسا صدارتی امیدوار ہے جو انتقال اقتدار کے پر امن طریقے کو تسلیم نہیں کرتا۔ اس نے چار برس پہلے بھی آئینی طریقے کے مطابق اقتدار منتقل کرنے کے بجائے اپنے حامیوں کو پورے ملک سے بلا کر اس وقت کپیٹل ہل کی عمارت پر حملہ کر وا دیاتھا جب کانگرس الیکٹورل کالج کے ووٹوں کی گنتی کر رہی تھی۔ سی این این پر ڈیموکریٹک پارٹی کے ترجمان یہ کہتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ دوسری مدت صدارت کے اختتام پر بھی وائٹ ہاﺅس چھوڑنے سے انکار کر دیں گے۔ وہ صدارت کو سفید فام قوم پرستوں کا دائمی حق تصور کرتے ہیں اور اپنے تا حیات صدر رہنے کے عزم کا اظہار بھی کر چکے ہیں اس لیے اس مختلف قسم کے صدارتی امیدوار کا نام کسی بھی ریاست کے بیلٹ پیپر پر نہیں ہونا چاہئے۔