سرخ لکیروں کا تقدس

امریکہ اور ایران ا س وقت ایک ایسے تنازعے میں الجھے ہوئے ہیں جسے وہ ایک بڑی جنگ میں تبدیل نہیں کرنا چاہتے ہیںمگر دو عالمی جنگوں سے لیکر کوریا‘ ویت نام‘ افغانستان‘ عراق اور یوکرین کی جنگیں انہی حالات میں شروع ہوئی تھیں جن میں آج امریکہ‘ اسرائیل اور ایران الجھے ہوئے ہیں۔واشنگٹن اور تہران حتی المقدور کوشش کر رہے ہیں کہ انکی افواج اایک دوسرے کے آمنے سامنے نہ آئیں مگر بحیرہ احمر میں آئے روز حوثی جنگجوﺅں اور امریکی افواج کے مابین ہونیوالے تصادم کی وجہ سے حالات بے قابو ہو سکتے ہیں۔امریکہ کے دفاعی ماہرین جس انداز سے دھیرے دھیرے پھیلتی ہوئی اس جنگ کو دیکھ رہے ہیں اسکے مطابق ایران کی حکمت عملی یہ ہے کہ سامنے آئے بغیر اپنے پراکسی گروپوں کے ذریعے امریکہ کے لئے زیادہ سے زیادہ مشکلات پیدا کی جائیں۔ دوسری طرف امریکہ کی کوشش یہ ہے کہ ایران کیساتھ براہ راست تصادم سے گریز کیا جائے کیونکہ اس وقت دنیا بھر میں اسرائیل اور حماس جنگ کی وجہ سے امریکہ مخالف جذبات پھیل رہے ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ اور ایران کے براہ راست تصادم کا مطلب ایک ایسی جنگ کا آغاز ہو گا جو ایک طویل عرصے تک جاری رہ سکتی ہے۔بحیرہ احمر میں حوثی جنگجو گذشتہ تین ماہ سے یورپ کے تجارتی جہازوں پر ڈرون اور میزائل حملے کر رہے ہیں مگر امریکہ نے انہیں للکارنے سے گریز کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ بحیرہ احمر سے ہر روز یورپی ممالک کے درجنوں بحری جہاز گذرتے ہیں۔اب حوثیوں کے حملوں کی وجہ سے ان جہازوں نے یہ آبی راستہ چھوڑ کر دوسرے طویل راستے اختیار کرنے شروع کئے ہیں جس کی وجہ سے نقل و حمل کے اخراجات میں خاصہ اضافہ ہو گیا ہے۔ بحیرہ روم سے گذرنے والے بحری جہازوں کی نقل و حرکت اورتعداد کے اعدادو شمار جمع کرنے والے ادارے Kiel Institute of the world economy کی رپورٹ کے مطابق دسمبر 2023 میں بحیرہ احمر سے گذرنے والے جہازوں کی تعداد دسمبر 2022کے مقابلے میں نصف سے بھی کم تھی۔ یہ تنازعہ اگر جاری رہتا ہے تو یورپی ممالک کو سخت مالی نقصان اٹھانا پڑیگا کیونکہ ایشیا سے یورپ جانے والے بحری جہازوں نے طویل راستے اختیار کرنے کی وجہ سے مال برداری کی کھیپ کے کرایوں میں دگنے سے زیادہ اضافہ کر دیا ہے۔ Kiel Institute کے مطابق حال ہی میں کووڈ کی تباہ کاری سے سنبھلنے کے بعد یورپی ممالک کی معیشتیں کسی بھی نئے نقصان کو برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتیں۔ کووڈ کے بعد یوکرین جنگ نے بھی یورپی معیشت کو بھاری بھرکم نقصان پہنچایا ہے ۔ دوسری طرف یمن میں حوثی قبیلے کی حکومت نے اعلان کیا ہواہے کہ وہ غزہ میں جنگ بندی تک بحیرہ احمر میں یورپی اور امریکی بحری جہازوں پر حملے جاری رکھیں گے ۔امریکہ نے گذشتہ ہفتے یمن میں ساٹھ اسلح خانوں پر حملے کر نے کے بعد خاموشی اختیار کر لی۔ اسکے جواب میں یمن کے حوثی حکمرانوں نے کہا ہے کہ وہ امریکی اور یورپی بحری جہازوں پر حملے کر کے حساب برابر کر دیں گے۔ اس وقت عراق میں ڈھائی ہزار کے لگ بھگ امریکی افواج موجود ہیں۔ شام اور ترکی کی سرحد پر داعش کے مقابلے کے لئے بھی امریکہ کے ایک ہزار فوجی کرد ملیشیا کی مددکر رہے ہیں۔ یہ امریکی فوجی ایران کے سب سے طاقتور پراکسی گروپ حزب اللہ کے نشانے کی زد میں رہتے ہیں۔ امریکہ اگر چہ کہ حزب ا للہ پر جوابی حملے کرتا رہتا ہے مگر وہ عراق اور شام کے محاذوں کو ٹھنڈا رکھنا چاہتا ہے لیکن اب اگر مشرق وسطیٰ کی اس نئی جنگ کا دائرہ وسیع ہوتا ہے تو عراق اور شام میں بھی امریکی افواج کے ٹھکانے حزب اللہ کے حملوں کی زد میں آ جائیں گے۔ ایران کی بھرپور کوشش یہی ہے کہ اس نئی جنگ کو محدود رکھا جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ کے دفاعی ماہرین کے مطابق تہران نے گذشتہ چند ہفتوں میں یورینیم کی افزودگی کے عمل کو اتنا تیز کر دیا ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیار بنانے کے Threshold یعنی دہلیز تک پہنچ گیا ہے۔ اب اگر تہران امریکہ کی کھنچی ہوئی اس سرخ لکیر کو عبور کرتا ہے تو پھر اس کی زیر زمین ایٹمی لیبارٹریاں امریکی اور اسرائیلی حملوں کی زد میں آ جائیں گی۔ امریکی ماہرین کے مطابق ایران موجودہ حالات میں اس سرخ لکیر کو عبور نہیں کریگا لیکن امریکہ نے تہران کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے یا اس کی سرحدوں پر حملے کرکے اس کی قومی سلامتی کو چیلنج کیا تو پھر ایران اپنے دفاع میں اس جنگ کو پھیلانے سے دریغ نہیں کریگا۔ امریکی تجزیہ نگاروں کے مطابق واشنگٹن‘ ایران کی اس سرخ لکیر کو عبور کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ نظر یہی آ رہاہے کہ سرخ لکیروں کا تقدس اگر برقرار رہتا ہے تو اس نئی جنگ کے شعلے بھڑکنے نہیں پائیں گے بصورت دیگر مشرق وسطیٰ ایک طویل جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔