ایران کی جنگیں

گذشتہ پیر اور منگل کے دن ایران نے تین دوست ممالک پر میزائل حملے کر کے پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ان میں سے شام اور عراق کیساتھ ملکر ایران بائیس برسوں سے امریکہ کی جنگ دہشت گردی کا مقابلہ کر رہا ہے‘ پاکستان اور ایران کا تعلق باہمی عزت و احترام کے جذبوں پر استوار ہے دونوں ممالک نے نہایت کٹھن حالات میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ دوستی اور تعاون کو برقرار رکھا ہے ان تینوں ممالک پر حملوں کا ایران نے صرف ایک جواز پیش کیا ہے تہران کی سرکاری نیوز ایجنسی IRNA کے مطابق یہ حملے کسی بھی ملک کی خود مختاری پر نہیں بلکہ ان میں موجود ایسی دہشت گرد تنظیموں پر کئے گئے ہیں جو ایران کی سرحدوں کے اندر داخل ہو کر تخریبی کاروائیاں کرتی ہیںان میزائل حملوں کے بعد ایران کے وزیر دفاع محمد رضا اشتیانی نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ ” ایران ایک میزائل پاور ہے اور جب بھی کوئی دشمن ہمیں للکارتا ہے تو ہم اسے سخت اور فیصلہ کن جواب دیتے ہیں“پاکستان نے اس حملے کے جواب میں بدھ کے روز ایران کے دو جنوب مشرقی شہروں ‘ سیستان اور سراوان پر فضائی حملے کر کے دس افراد ہلاک کردیئے‘ اسلام آباد میں وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ یہ حملے بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچ لبریشن فرنٹ کے ٹھکانوں پر کئے گئے ۔ ان حملوں کے دوران دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ‘ جو سوئٹیزر لینڈ کے شہر ڈٰیوس میں ورلڈ اکنامک فورم میں شرکت کر رہے تھے‘ مسلسل رابطے میں رہے۔ ایران کی نیم سرکاری نیوز ایجنسی” تسنیم“ نے پیر 22 جنوری کو اطلاع دی ہے کہ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہ 29جنوری کو پاکستان کا دورہ کریں گے جہاں وہ اپنے ہم منصب جلیل عباس جیلانی سے گذشتہ ہفتے کے تصادم اور سرحدی علاقوں میں پائے جانیوالی کشیدگی پر بات چیت کریں گے۔ لگتا ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات ایک ہفتے تک اعصاب شکن صورتحال سے دو چار رہنے کے بعد اب واپس اعتدال اور میانہ روی کی طرف لوٹ جائیں گے۔ ایران ‘ غزہ میں گذشتہ ساڑھے تین ماہ سے ہونیوالی ہولناک جنگ میں اس لحاظ سے الجھا ہوا ہے کہ حماس‘ حزب اللہ اور حوثی تنظیمیں ‘ جن کے تہران کیساتھ گہرے تزویراتی تعلقات ہیں‘ براہ راست امریکہ اور اسرائیل کا مقابلہ کر رہی ہیں۔ مغربی ممالک ایران پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ اپنی تمام جنگیں اپنی سرحدوں سے باہر لڑتا ہے ‘ اپنا انقلاب دوسرے ممالک تک پہنچانا چاہتا ہے اور مشرق وسطیٰ میں اس کی عسکری تنظیمیں اس کے دشمنوں کو الجھائے رکھتی ہیں‘ لیکن گذشتہ پانچ ہفتوں میں ایران کی سرحدوں کے اندر پے در پے حملوں نے اس تاثر کو زائل کردیا ہے۔ سب سے پہلے 15 دسمبر کو جیش العدل نامی دہشت گرد تنظیم نے ایران اور پاکستان کی سرحد کے قریب واقع ایرانی شہر رسک میں حملہ کرکے ایران کی سکیورٹی فورسز کے گیارہ افراد ہلاک کر دیئے۔ تہران اور اسلام آباد اکثر ایک دوسرے سے عسکریت پسند تنظیموں کی ان کاروائیوں کے بارے میں احتجاج کرتے رہتے ہیں مگر یہ گفت و شنید آج تک نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکی۔ایران کے یہ زخم ابھی مندمل نہیں ہوئے تھے کہ بدھ 3 جنوری کو داعش نے کرمان میں دو خود کش حملوں میں 100کے لگ بھگ شہری ہلاک کر دیئے۔ یہ حملے جنرل قاسم سلیمانی‘ جو پاسدارن انقلاب کے کمانڈر تھے اور جنہیں امریکہ نے ایک ڈرون حملے میں بغداد ائرپورٹ کے باہر 3 جنوری 2020 کو ہلاک کیا تھا‘ کی تیسری برسی کے موقع پر کئے گئے۔ قاسم سلیمانی نے داعش کے خلاف عراق اور شام میںلڑی جانے والی طویل جنگوں میں ایرانی فوج کی قیادت کی تھی۔ کرمان میں داعش کے خود کش حملوں کے جواب میں ایران نے منگل16 جنوری کو عراقی کردستان کے شہر اربل میں میزائل حملے کئے۔اربل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے اسرائیل نے کئی مرتبہ ایران کی ایٹمی لیبارٹریوں اور اس کے سائنسدانوں پر حملوں کے لئے استعمال کیا ہے۔ کرمان پر حملے کے بعد ایرانی قیادت کے لئے داعش کو جواب دینا ضروری ہو گیا تھا۔ بصورت دیگر ایرانی عوام اپنے آپ کو غیر محفوظ اور اپنی حکومت کو بے بس سمجھنے میں حق بجانب ہوتے۔داعش کے ٹھکانے کیونکہ عراق کے علاوہ شام میں بھی ہیں اس لئے ایران نے شام کے شمال مغربی شہر ادلیب میں داعش کے ٹھکانوں پر پیر 15 جنوری کو ڈرون اور میزائل حملے کئے۔ ایران‘ روس کے ساتھ مل کر گذشتہ بارہ برسوں سے دمشق میںبشار ا لاسد کی حکومت کو بچانے کے لئے داعش اور امریکہ کے حملوں کا مقابلہ کر رہا ہے۔ داعش اور امریکہ شام کے خلاف بر سر پیکار ہونے کے علاوہ ایک دوسرے سے بھی الجھے ہوئے ہیں۔ اسی لئے بشارالاسد نے ایران کے حالیہ حملے کے خلاف کوئی احتجاج نہیں کیا۔ان حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران ‘ امریکہ اور اسرائیل کیساتھ حالت جنگ میں ہونے کے علاوہ دوسرے کئی ممالک میں چھپی ہوئی دہشت گرد تنظیموں کا مقابلہ بھی کر رہا ہے۔ اتنے صبر آزما اور نا مساعد حالات کم ہی کسی ملک کے حصے میں آئے ہوں گے۔