قابل توجہ باتیں

معروف براڈ کاسٹر رضا علی عابدی اپنے ریل کے سفر کی روداد میں اس وقت کے حالات بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ سگنل اور کانٹے کے ایک کیبن میں تین طرف کھڑکیاں تھیں جن کے زیادہ تر شیشے ٹوٹ چکے تھے اور سردیوں کی راتوں میں یخ ہوا چلتی تھی تو بے چارہ کیبن مین پرانے اخباراور گتا ٹھونس کر ہوا روکتا تھا سامنے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک ٹھوس لوہے کے کانٹے کے بڑے بڑے لیور اور ہینڈل لگے ہوئے تھے جنہیں کھینچنا‘ گرانا‘ لاک کرنا اور ریلیز کرنا عام آدمی کے بس کا کام نہیں‘ میں نے پوچھا کہ کس طرح کے لوگ یہ مشقت جھیلتے ہیں جواب ملا‘ اکثر گاﺅں دیہات کے آدمی یہ کام کرتے ہیں‘ لیکن وہاں ایک ہونہار سا کیبن مین کھڑا تھا اور پڑھا لکھا نظرآتا تھا پتہ چلا کہ وہ میٹرک پاس ہے میں نے پوچھا کہ تم نے اتنی مشقت والی نوکری کیوں کی؟ وہ بولا اچھی نوکری کے لئے سفارش اور پیسے کی‘ رشوت کی ضرورت ہے وہ ہمارے پاس نہیں ہے یہ تو نیا کیبن مین تھا پرانا کیبن مین اپنے کام میں تن دہی سے جٹا ہوا تھا جس کے لئے اسے آٹھ گھنٹے کھڑا رہنا پڑتا ہے نہ بیھٹنے کی فرصت ہے نہ مہلت اور نہ سہولت‘ اور تو اور اس کے کیبن سے ملا ہوا نہ کوئی باتھ روم ہے نہ ٹوائلٹ‘ میں نے پرانے کیبن مین سے کہا بڑا ذمہ داری کا کام ہے‘ وہ برجستہ بولا ذمہ داری اورطاقت کاکام ہے آٹھ گھنٹے اپنا یہی حشر کرنا پڑتا ہے اسکے علاوہ یہ پورا کیبن بہت قدیم ہے یہ سن1906ءکا بنا ہوا ہے اور پاکستان نے اسے آج تک تبدیل نہیں کیا وہی کا وہی سارا کچھ کھڑا ہے جو ٹوٹ گیا وہ بدل دیاورنہ وہی سارا کھڑا ہے‘ کیبن مین نے مجھے ایک دل دہلانے والی بات بتائی‘ کہنے لگا کہ یہ سامنے پینل پر لگے ہوئے بارہ بلب دیکھ رہے ہیں آپ‘ یہ نہ ہوں تو گاڑیاں آپس میں ٹکرا جائیں‘ اب سنئے کہ ان میں سے نوبلب فیوز پڑے ہوئے ہیں اس کے الفاظ یوں تھے” حکومت کے پاس اتنے پیسے نہیں‘ کہ یہ بلب لے دے‘ یہ سب فیوز پڑے ہیں‘ آﺅٹر سے لے کر آﺅٹر تک ہمارے پاس ٹی موجود ہیں( ٹی سے مراد شاید ٹریک انڈی کیٹر ہے) فلاں ٹی پر آﺅٹر کے باہر گاڑی کھڑی ہے‘ ہمیں معلوم ہو جاتا ہے گاڑی کھڑی ہے لیکن بلب فیوز ہیں اور حکومت لے بھی نہیں سکتی‘ میں نے پوچھا آپ نے مانگے ہیں کبھی؟ سب کو پتہ ہے بلاک والوں کو پتہ ہے کہ یہاں بلب نہیں ہیں‘ میں نے پوچھا آپ صرف دیکھ کر پتہ کرتے ہیں کہ گاڑی آرہی ہے؟ جی‘ رات کے وقت ٹرین کی روشنی سے معلوم ہو جاتا ہے کہ گاڑی آﺅٹر کے باہر کھڑی ہے دن کو سامنے نظر آجاتی ہے لیکن آﺅٹر کے باہر کھڑی ہو تو نظر آنا ضروری نہیں آﺅٹر کے باہر گاڑی کھڑی ہوتو یہ ٹی سرخ ہوتی ہے‘ مگر اس میں بلب نہیں؟ بلب ہے مگر فیوز ہے‘ جلتا نہیں‘ پھر دوسرے اور پرانے کیبن مین نے اضافہ کیا پچھلے دو سال میں جو پیروغیب میں سپرایکسپریس کا جو حادثہ ہوا تھا ان ہی ناکارہ بلبوں کی وجہ سے ہوا تھا آﺅٹر کے باہر چھکڑے کھڑے تھے مگر کسی کو معلوم نہ تھا بس انہوں نے لائن کلیئر دے دی اور حادثہ ہوگیا صرف یہ بلب فیوز ہونے کی وجہ سے‘ میں نے پوچھا اس بلب کی قیمت کتنی ہوگی؟ زیادہ سے زیادہ دو روپے‘ کیبن مین کے دکھ اسی پر تمام نہیں ہوئے میرا خیال تھا کہ اتنی ذمہ داری کا تنہا دشوار کام کرنے کی اسے اجرت تو اچھی خاصی مل جاتی ہوگی‘ پتہ چلا افسوس حکام پر ہے ہمارا اسکیل وہی پانچواں رکھا ہے اورپوزیشن وہی رکھی ہے اور جو کام ہے آپ دیکھ سکتے ہیں آپ کے سامنے ہے‘ میں نے پوچھا اگر آپ پچیس سال ملازمت کریں تو اسی گریڈ میں رہیں گے؟ پانچویں سے چھٹا ہو جائے گا بس اس کے بعد کوئی چارہ نہیں‘ میں نے کیبن مین سے پوچھا آپ کے بچے تعلیم پا رہے ہیں جی وہ اس کام کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ انہیں تو کبھی دکھایا بھی نہیں کیبن‘ کبھی نہیں دکھایا اور میرے بچوں کو پتہ بھی نہیں کہ کیبن کیسی ہوتی ہے اور کہاں ہوتی ہے ۔