ایک امریکی تھنک ٹینک ’ بروکنگ انسٹیٹیوٹ‘ کی تحقیق کے مطابق سال رواں میں 80 ممالک میں انتخابات ہونگے جن میں تقریباّّچار ارب ووٹر حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ یہ تعداد دنیا کی کل آبادی کا نصف ہے۔ اس اعتبار سے 2024 ایک ایسا سال ہے جس میں لوگ اپنے ووٹ کا ستعمال کر کے ایسے فیصلے کرینگے جن کے اثرات آئندہ کئی برسوں تک عالمی سیاست پر چھائے رہیں گے‘ ماہرین کے مطابق جمہوری حقوق کا اتنے وسیع پیمانے پر استعمال اس سے پہلے نہیں کیا گیا۔ دنیا کے طول و عرض میں ہونے والے انتخابات بظاہر تو جمہوری نظام کی کامیابی اور مقبولیت کا پتہ دیتے ہیںمگر ان میں پوشیدہ ایک اہم سوال یہ ہے کہ ان انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونیوالی حکومتیں اگر عوامی امنگوں کے مطابق نتائج دینے میں ناکام ہو جاتی ہیں تو پھر جمہوریت کا مستقبل کیا ہو گا۔کیا لوگ اس طرز حکمرانی سے مایوس ہو کر مطلق العنانیت کو قبول تو نہیں کر لیں گے۔ امریکہ سے لیکر پاکستان تک شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جس میں جمہوری نظام کو خطرات لاحق نہ ہوں۔ دنیا بھر میں پاپولسٹ حکمرانوں کے عروج نے ایک ایسی صورتحال پیدا کر دی ہے جسکی وجہ سے جمہوری نظام کافی دباﺅ میں آ گیا ہے۔ امریکہ میں آج بھی یہ مسئلہ زیر بحث ہے کہ اگر چھ جنوری 2021ءکو کیپٹل ہل پر ہونے والا حملہ کامیاب ہو جاتا تو اس وقت کیا صورتحال ہوتی‘
ظاہرہے اس صورت میں جوزف بائیڈن کی جگہ ڈونلڈ ٹرمپ صدر امریکہ ہوتے‘ ڈیموکریٹک پارٹی کے لاکھوں ووٹرز سڑکوں پر احتجاج کرتے اور خانہ جنگی کا سماں ہوتا۔ اسکے نتائج جو بھی ہوتے امریکی جمہوریت پر سے دنیا بھر کا اعتماد اٹھ جاتا‘ اس منظر نامے نے دنیا بھر میں جمہوریت کے مستقبل کو خطرات سے دو چار کر دینا تھا۔ آجکل امریکہ میں نو ماہ بعد ہونیوالے الیکشن کے بارے میں ابھی سے یہ خدشات گردش کر رہے ہیں کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ فتح یاب ہوتے ہیں تو اس بات کی کیا ضمانت ہوگی کہ وہ چار سال بعد اقتدار سے دستبردار ہو جائیں گے۔ امریکی میڈیا میں یہ سوال بھی زیر بحث ہے کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں سال کے الیکشن میں شکست کھانے کے بعدنتائج کو تسلیم نہ کیا تو پھر کیا ہو گا۔ جمہوری نظام کے بارے میں یہ سوالات صرف امریکہ تک ہی محدود نہیں کئی دوسرے ممالک میں بھی انتخابی عمل پر حکومتوں کے اثر انداز ہونے کے بارے میں
سوالات پوچھے جا رہے ہیں۔ بنگلہ دیش میں سات جنوری کو ہونیوالے الیکشن کئی اعتبار سے متنازع ہیں۔ ان انتخابات میں ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی نے وزیر اعظم حسینہ واجد کی حکومت پر انتقامی سیاست اور تشدد کے الزامات لگاتے ہوے یہ مطالبہ کیا تھا کہ الیکشن ایک نگران حکومت کی موجودگی میں کرائے جائیں۔ یہ مطالبہ تسلیم نہ ہونے کی صورت میں بی این پی نے الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا اور یوں عالمی میڈیا میںان انتخابات کو مشکوک اور جانبدارانہ کہا جا رہا ہے۔ پاکستان میں اگر چہ ایک نگران حکومت کی موجودگی میں انتخابات کرائے جا رہے ہیں لیکن ایک مقبول سیاسی جماعت تحریک انصاف احتجاج کر رہی ہے کہ اسکے امیدواروں پر تشدد کیا جا رہا ہے۔ اسکے جواب میں نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ یہ کہہ رہے ہیں کہ تمام سیاسی جماعتوں کو مساوی مواقعے فراہم کئے گئے ہیں۔ پاکستان میں آٹھ فروری کو ہونیوالے انتخابات میں لوگوں کے جو ش و خروش اور نگران حکومت کی یقین دہانیوں کے تناظر میں یہ امید کی جا سکتی ہے یہ الیکشن ووٹروں کے علاوہ بیرونی مبصرین کی رائے میں بھی قابل اعتبار سمجھے جائیں گے۔ جمہوری نظام کو حکومتوں کی مداخلت اور دھاندلی کے
الزامات کے علاوہ ڈس انفارمیشن اور فیک نیوز کے حملوں کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ہر دو قسم کے ممالک میں یہ تاثر عام ہے کہ امریکہ اپنی دولت اور اثر و رسوخ کو استعمال کر کے انتخابی نتائج پر اثر انداز ہوتا ہے۔ بروکنگ انسٹیٹیوٹ کے محقق Darrell West کی رائے میں دنیا بھر میں جمہوریت پر لگائے جانیوالے الزامات کی ایک وجہ Perfect storm of disinformation ہے یعنی غلط معلومات کا ایک مکمل طوفان جمہوری نظام سے بر سر پیکار ہے۔ اس تنازعے میں ستم ظریفی یہ ہے کہ امریکی حکومت چین' روس اور ایران پر یہ الزامات لگا رہی ہے کہ وہ ملکر نہ صرف امریکہ کے صدارتی انتخابات میںفیک نیوز اور مصنوعی ذہانت کو استعمال کر کے مداخلت کر رہے ہیں بلکہ انہوں نے دنیا بھر میں جمہوریت کو نقصان پہنچانے کیلئے بھرپور مہم شروع کر رکھی ہے‘ امریکی نیوز میڈیا میں آج کل Doppelganger نام کی ایک روسی کمپنی کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ مشہور بین الاقوامی خبر رساں ایجنسیوں کا روپ دھار کے امریکہ کیخلاف نفرت پھیلا رہی ہے۔ امریکی دانشوروں کا کہناہے کہ رواں سال دنیا بھر میں ہونیوالے انتخابات کو اگر شرف قبولیت حاصل نہ ہوئی تو اسکے نتیجے میں پیدا ہونیوالا بحران صرف جمہوریت ہی کیلئے نہیں بلکہ امریکی ورلڈ آرڈر کیلئے بھی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔