آٹھ فروری کو ہوئے حالیہ عام انتخابات کے نتائج سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ’جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے‘ اب یہ الگ بات ہے کہ آپ اس مینڈیٹ کو قبول کرتے ہیں یا نہیں۔ سابق وزیر اعظم عمران خان انتخاب میں نہیں تھے وہ اڈیالہ جیل میں تھے مگر نواز شریف، بلاول بھٹو، آصف زرداری، مولانا فضل الرحمان، ایمل ولی اور خالد مقبول میدان میں تھے۔ مسلم لیگ(ن) کی حکومت آنی تھی میاں صاحب کو چوتھی بار وزیر اعظم بنناتھا کم ازکم سادہ اکثریت کی یقین دہانی تھی، ایم کیو ایم کو2013جتنی سیٹیں دینا تھیں مگر ان ’ شرارتی نوجوانوں‘ نے بازی پلٹ کررکھ دی۔ کئی ایک کا خیال تھا کہ ’بلے‘ کا انتخابی نشان نہ ملنے کے بعد بائیکاٹ کی کال آئے گی اور کھیل آسان ہوجائے گا مگر پھریوں ہوا کہ سلیکٹرز بھی دیکھتے رہ گئے اور جنہیں ‘ سلیکٹ‘ ہونا تھا وہ بھی ۔
اب اس بات کو ہضم کرنا کچھ ہمارے دوستوں کے لئے مشکل ہے مگر اس غیر معمولی الیکشن نے ایک بات ثابت کردی کہ پاکستان تحریک انصاف ایک مضبوط سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی اور سیاسی فیصلوں سے منوایا بھی مگر کل تک جن کو ’ممی ڈیڈی،مغرب زدہ خواتین اور بگڑے ہوئے نوجوان‘ جیسے القاب سے نوازا گیا انہوں نے ووٹ کو عزت ‘ بھی دلوائی اور جمہوریت کے ذریعے اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا انتقام بھی لیا۔ کون سا ایسا حربہ ہے جو نہ استعمال ہوا؟ آخر میں پولنگ کے دن انٹر نیٹ اور موبائل بند پھربھی ’بیلٹ باکس‘ بھر گئے جنہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے میں شاید دودن لگ گئے۔
اب جھگڑا ہے ’ کرسی‘ کا مگر ان شرارتی نوجوانوں کی جمہوری شرارتوں کی وجہ سے میاں نواز شریف وزرات عظمیٰ کی دوڑ سے باہر ہوگئے اور چوتھی بار وزیر اعظم بننے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکا نہ ہی بلاول بھٹو وزیر اعظم بن پائے۔ خیر اس پر آگے چل کر بات کرتے ہیں۔ ’ کرسی‘ ایک ہے امیدوار کئی اور سب لاڈلے بننے کو تیار۔ ایسے میں خطرہ یہی ہے کہ کہیں اتنی مضبوط کرسی ٹوٹ گئی تو بننے میں برسوں لگ سکتے ہیں ’ عبوری‘ تو ویسے ہی تیار بیٹھے ہیں مستقل ہونےکیلئے ۔
اس الیکشن کا ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ آپ نے جلسے، جلوس روکے تو نوجوانوں نے آن لائن جلسے شروع کردئیے۔ زوم ، ٹک ٹاک، انسٹا گرام، فیس بک کا استعمال اب ان ویب سائٹس کو تو دفعہ 144کے تحت سزا نہیں دی جاسکتی ۔پہلے تو مخالفین کے جلسوں میں پانی یہاں تک کہ سانپ چھوڑ دئیے جاتے تھے۔ سرکار نے پی ٹی اے کو متحرک کیا۔ پی ٹی آئی والوں سے معذرت کے ساتھ شکرکریں فواد چوہدری اگر میڈیااتھارٹی بنادیتے جیسا کہ پلان تھا تو ایک آرڈر پرسب بند ہوتا۔بہرحال پی ٹی اے نے پی ٹی آئی کا توڑ نکالا مگر یہ نوجوان کہاں رکنے والا تھا ایک سائٹ بلا ک کرتے تودوسری تیار۔
پی ٹی آئی نے اتنی سیاست تو سیکھ لی ہے کہ مولانا کا گاجر کا حلوہ اور بہترین بنائی ہوئی برفی بھی کھا لی اور ان کو انتخابی میدان میں شکست دینے والے کو کے پی کا وزیر اعلیٰ بھی نامزد کردیا۔ اس سے بڑی کامیابی پی ٹی آئی کو اورکیا مل سکتی ہے کہ وہ حکومت بنا پائیں یا نہیں زیادہ امکان اسی کا ہے کہ وہ بنانے کی پوزیشن میں نہیں تاآنکہ کوئی چمتکار ہوجائے مگر انہوں نے اپنے سب سے بڑے سیاسی حریف میاں نواز شریف کے چوتھی بار وزیر اعظم بننے کا خواب چکنا چور کردیا اور مجبوراً انہیں اپنے بھائی شہباز شریف کو میدان میں اتارنا پڑا... اب بھائی شہباز کا رول کرکٹ کے اس12ویں کھلاڑی کی طرح کا ہوگیا ہے جس کا کام میدان میں یا تو پیغام لے کر جانے کا ہوتا ہے یا پانی پلانے کا۔ معذرت کے ساتھ مشکل میں میاں نواز شریف مقابلہ کرنے کے بجائے سائیڈ پکڑ لیتے ہیں۔ اگر کچھ دوستوں کو یاد ہو کہ ایسی ہی ایک تکرار دسمبر،2021میں مسلم لیگ(ن) کے لیڈر طارق فضل چوہدری صاحب کے گھر پرمیاں صاحب اور زرداری صاحب کے درمیان ہوئی تھی اجلاس پی ڈی ایم کا تھا دونوں ویڈیو لنک پرتھے تلخی اس وقت آئی جب میاں صاحب نے اسلام آباد تک لانگ مارچ کا کہا تو زرداری صاحب نے لقمہ دیا ، ’ آپ تشریف لائیں اور لیڈ کریں‘۔
الیکشن 2024 ایک غیر معمولی الیکشن ثابت ہوا ہے۔ وہ نوجوان جسے طلبہ یونین کا تجربہ نہیں ہے کہ ہم نے اور ہماری ریاست نے اس سے یہ حق1984میں لے لیا تھا ۔اسے میں سیاسی بیداری نہ کہوں تو اور کیا کہوں کہ آپ نے اس کے سارے دروازے بند کردئیے۔ یہاں تک کہ امیدوار یا تو کئی جیلوں میں بشمول خواتین جیساکہ ڈاکٹر یاسمین راشد مگر وہ نوجوان اور گھرانے خواتین اور لڑکیاں پولنگ اسٹیشن تک پہنچ گئیں۔ پولنگ میں تاخیر کی گئی اور گنتی میں بھی اور پھر نتائج میں بھی مگر نتیجہ بنانےوالے بھی انسان ہیں آخر کتنے نتیجے تبدیل کرتے لہٰذا مکمل نتیجہ کیونکہ شاید لندن یا امریکہ سے آنا تھا تو 47 فیصد ووٹ گننے میں دودن لگ گئے۔مجھے تو یہ پاکستان بدلتا نظر آرہا ہے بہت بہتری کی گنجائش اب بھی ہے مگر خدارا دونمبری کرکے نتائج نہ بدلیں بلکہ ان نوجوانوں سے گفتگو کریں۔ یہ پابندیاں لگانے کا دور نہیں ہے آزادی کو سنبھالنے کا دور ہے جہاں نوجوان لڑکے لڑکیاں پولیس وین میں خود سوار ہوجائیں ، جہاں خواتین مہینوں جیل کاٹ کر باہر آگئی ہوں یا جیل سے ہی الیکشن لڑیں وہاں اب بھرم کیسے رہے گا۔
اب بھی اگر آپ ان ’ شرارتی ‘ نوجوانوں کو نہیں سمجھ سکے تو کچھ اور سختی کرکے دیکھ لیں۔ اگر آپ نے سیاسی معاملات میں شروع سے مداخلت نہ کی ہوتی توآج کا پاکستان صحیح معنوں میں جمہوری پاکستان ہوتا، ایک ویلفیئر اسٹیٹ ہوتا۔۔1947کے نوجوانوں نے پاکستان بنایا جمہوری جدوجہد کے ذریعہ، بننے کے بعد آپ نے انصاف نہیں کیا تو1970کے نوجوانوں نے علیحدگی اختیار کرلی۔ آپ نے پھر بھی سبق نہیں سیکھا اور نوجوانوں کے ایک مقبول لیڈر کو پھانسی لگادی جس کو وہ آج تک نہیں بھولے ۔ پھر نوجوان ایک ’خاتون‘ کے سیاسی سحر میں کھوگئے کیونکہ اس نے عملی جدوجہد کی تھی مگر اس کی راہ میں بھی رکاوٹیںکھڑی کی گئیں، عورت کی حکمرانی پر سوالات کھڑے کیے گئے مگر لوگوں نے اس کو ووٹ دیا پھر بھی وہ قابل قبول نہیں ہوئی تو راستے سے ہی ہٹا دیا گیا۔ سبق پھر بھی نہیں سیکھا۔
الیکشن2024انہی شرارتی نوجوانوں کی شرارت ہے ۔یہاں تک لانے میں، کیا جتن تھے جو نہیں کیے گئے پورا 2023ءگزارا گیا ’مثبت نتائج‘ لانے میں جن کیلئےسارا گرائونڈ بنایا گیا تھا وہی اب دوڑ سے باہر ہیں اور جو دوڑ میں ہیں وہ آپس میں لڑ رہے ہیں لانے والے بھی پریشان ہیں اور آنے والے بھی۔ دیکھیں اس ’کرسی‘ پر آخرمیں کون براجمان ہوتا ہے۔ ہاں ایک بات تو واضح ہے اس نوجوان کی شرارتیں توکم نہیں ہونگی کیونکہ یہ ’ ڈیجیٹل نوجوان ‘ ہے۔ اب صرف یہ ہوسکتا ہے کہ آئندہ الیکشن ‘صرف بالغان‘ کیلئے ہو جس کی عمر کاتعین ہمارے بھائی لوگ کریں یا پھر اس ’ شرارتی نوجوان‘ سے بات کریں کیونکہ ا س ملک کی65فیصد آبادی یعنی اکثریت انہی کی ہے وہ اِس طرف ہوں یا اُس طرف۔ جتنی جلدی ہم یہ سمجھ لیں اتنا ہی بہتر ہے۔