جعفر ایکسپریس حملہ: بچ نکلنے والے مسافروں نے کیا کچھ دیکھا؟

جعفر ایکسپریس کے مسافروں نے دہشت گردوں کے حملے کو قیامت کی گھڑی قرار دیا، کئی افراد کو اب بھی اپنے پیاروں کی تلاش ہے۔ بازیاب مسافروں نے فوج اور ایف سی کو فوری کارروائی پر خراج تحسین پیش کیا۔

ٹرین کو روکے جانے اور پھر شدید فائرنگ کے بعد ہر جانب دہشت کا عالم تھا۔ مسافروں کے مطابق وہ گھڑی جیسے قیامت کی گھڑی تھی۔ بے مسافروں پربڑی مصیبت آن پڑی تھی۔

جعفر ایکسپریس کے مسافروں نے دہشت ناک داستان سناتے ہوئے کہا کہ اس وقت افراتفری اور ہر جانب چیخ و پکار تھی۔ لوگوں کو اب بھی اپنے پیاروں کی تلاش ہے، کوئی ماں اپنے جگر کے گوشے کو ڈھونڈتی رہی، تو کوئی بیٹا باپ کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ تو کوئی بیٹا باپ کی تلاش میں سرگرداں ہے۔

مسافروں کی جانب سے فوج اورایف سی کو بھی خراج تحسین پیش کیا گیا، ان کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ جوانوں نے ہمارا بہت خیال رکھا۔ بازیاب مسافروں کی ان کے آبائی علاقوں کو روانگی کا سلسلہ جاری ہے۔

بچ نکلنے والے مسافروں نے کیا کچھ دیکھا؟

بدقسمت ٹرین میں سوار ایک مسافر محبوب حسین بھی تھے جو ان کے مطابق کسی کام کے سلسلے میں گھر جا رہے تھے۔ انہوں نے بی بی سی سے بات کی اور بتایا کہ دہشتگردوں کے حملے کے بعد کیا صورتحال ہوگئی تھی اور کس طرح انہوں نے ٹرین سے ہمیں نکال کر علیحدہ علیحدہ گروپ میں تقسیم کیا۔


جعفر ایکسپریس کے مسافر محبوب حسین نے بتایا کہ ان کا تعلق کوئٹہ کے سیٹلائٹ ٹاؤن کے علاقے سے ہے جو ایک بالوں کے ڈریسر ہیں۔

محبوب حسین کا تعلق جنوبی پنجاب کے شہر لودھراں سے ہے۔ وہ کوئٹہ کے سیٹلائٹ ٹاؤن کے علاقے میں ہیئرڈریسر کا کام کرتے ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے محبوب حسین نے بتایا کہ میں کسی کام سے گھر واپس جا رہا تھا کہ اس ٹرین کا مسافر بنا جو حملے کی زد میں آئی۔ انہوں نے بتایا کہ حملے کے بعد دہشتگردوں نے ہمیں شناخت کی بنیاد پر مختلف گروپوں میں تقسیم کردیا تھا جس میں پنجابی، سندھی، بلوچی اور پشتون شامل تھے جبکہ فوج اور ایف سی کے ملازمین کو علیحدہ گروپ میں کر دیا گیا تھا۔

انہوں نے خوفناک تجربہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ فائرنگ کا سلسلہ پوری رات چلتا رہا، انہوں نے بتایا کہ میرے ساتھ والے شخص کو میری آنکھوں کے سامنے گولی مار کر قتل کردیا جس کے بعد میں بہت خوفزدہ ہوگیا۔ محبوب حسین نے بتایا کہ مرنے والا مسافر دہشتگردوں کے سامنے اپنی پانچ بیٹیوں کا واسطہ دیتا رہا تاہم انہوں نے پھر بھی اس پر فائرنگ کردی۔

محبوب حسین کے مطابق صبح اذان کے وقت ہم لوگ اس وقت بھاگنے میں کامیاب ہو گئے جب ایف سی نے وہاں فائرنگ کی۔ ان کے مطابق جب ہم وہاں سے بھاگ رہے تھے تو ہماری پیچھے فائرنگ ہوتی رہی۔ ان کے مطابق دو ڈھائی کلومیٹر کے بعد ہم بھاگ کر محفوظ جگہ تک پنچنے میں کامیاب ہوئے جہاں ہمیں فوج اور ایف سی نے پناہ دی۔


وہیں جعفر ایکسپریس کے اور مسافر فوج کے سابق حوالدار اللہ دتہ نے بھی اپنا تجربہ شئیر کیا اور بتایا کہ وہ یہاں کاروبار کے سلسلے میں آئے تھے، خوش قسمتی سے وہ اس دہشتگردانہ حملے سے نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ انہوں نے بتایا کہ دہشت گرد جیکٹ پہنی ہوئی تھیں اور وہ اسلحے سے لیس تھے۔ اللہ دتہ نے بتایا کہ میں نے بھاگ نکلنے کا فیصلہ کیا اور کہا کہ موت لکھی ہوگی تو مر جاؤں گا۔

اس کے علاوہ جعفر ایکسپریس میں موجود ایک ریلوے پولیس اہلکار کے مطابق انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ بشدت پسندوں کا مقابلہ کیا۔ مذکورہ اہلکار کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھ ریلوے پولیس کے چار اور ایف سی کے دو اہلکار موجود تھے۔


ریلوے پولیس اہلکار کے مطابق شدت پسندوں نے لوگوں کو شناخت کی بنیاد پر علیحدہ کرنے کے بعد فوجی ملازمین کے ہاتھ باندھ دیے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ جعفر ایکسپریس کے کئی مسافروں کو شدت پسندوں نے مار دیا تھا،انہیں کوئی ہر تھوڑی دیر بعد مارنے کا آرڈر دے رہا تھا۔

پولیس اہلکار کے مطابق بدھ کی صبح جب ایف سی کے اہلکار جائے وقوع پر پہنچے تو شدت پسندوں کی ساری توجہ ان کی طرف چلی گئی اور ایسے میں ہم نے بھاگ نکلنے کا فیصلہ کیا۔ ریلوے پولیس اہلکار نے مزید بتایا کہ میں بھاگ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ قریبی ریولرے اسٹیشن پہنچے تو وہاں ایف سی کے اہلکاروں نے ہمیں بٹھایا اور پھر ہمیں وہاں سے مچھ لے گئے۔