انتخابی نشان سے متعلق عدالتی فیصلے پر تنقید، سپریم کورٹ نے برطانوی ہائی کمیشن کو خط لکھ دیا

سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بلے کے انتخابی نشان سے متعلق عدالتی فیصلے پر تنقید کرنے پر برٹش ہائی کمیشن جین میریٹ کو جواب دے دیا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے برطانوی ہائی کمیشن کو خط لکھ دیا، خط رجسٹرار سپریم کورٹ نے چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کے حکم پر لکھا۔

خط کے متن کے مطابق برطانوی ہائی کمشنر نے عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں جمہوریت اور کھلے معاشرے کی بات کی، سپریم کورٹ آف پاکستان نے غلطیوں کا ازالہ کیا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ برطانیہ بھی غلطیوں کا ازالہ کرے۔

خط میں 1953 میں ایرانی حکومت کا تختہ الٹنے اور بالفور اعلامیے کے ذریعے اسرائیلی ریاست کے قیام کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ رجسٹرار نے خط پاکستان میں برطانیہ کے ہائی کمشنر جین میریٹ کے نام بھجوایا، جس میں کہا گیا کہ عاصہ جہانگیرکانفرنس میں آپ کی تقریرمیں جمہوریت کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا، آپ کی تقریر میں انتخابات اور کھلے معاشرے کی اہمیت کواجاگر کیا گیا۔

خط کے متن کے مطابق برطانوی حکومت کی طرف سے دکھائی جانے والی دلچسپی خوش آئند ہے،انتخابات بروقت نہیں ہوسکے تھے کیونکہ صدر، الیکشن کمیشن متفق نہیں تھے، پاکستان میں اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے کے 90 دن کے اندر انتخابات ضروری تھے۔

خط میں مزید لکھا گیا کہ صدر اور الیکشن کمیشن متفق نہیں تھے، الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرنے کا اختیار کس کو ہے، سپریم کورٹ نے یہ معاملہ صرف 12 دن میں حل کردیا، 8 فروری 2024 کو پورے پاکستان میں عام انتخابات ہوئے، الیکشن لڑنے کے خواہش مند بہت لوگوں کو تاحیات پابندی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔

رجسٹرار سپریم کورٹ کے خط میں یہ بھی کہا گیا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے انہیں ایماندار اور قابل اعتماد نہیں سمجھا جاتا تھا تاہم 7 رکنی بینچ نے پہلے کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ آئین اور قانون کے مطابق نہیں ہے، انٹرا پارٹی انتخابات کا انعقاد آمریت کو روکنے کے لیے اور سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت کی ضرورت ہے۔

برطانوی ہائی کمشنر کو لکھے گئے خط میں کہا گیا کہ جمہوری اصول کی تعمیل کو یقینی بنانے کے لیے قانون میں شرط رکھی گئی ہے، کوئی سیاسی جماعت انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرواتی تو وہ انتخابی نشان کے لیے اہل نہیں ہوگی، ایک سیاسی جماعت (جس نے خود اس قانون کے لیے ووٹ دیا تھا) اس نے لازمی انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرائے تھے۔

خط کے متن کے مطابق سپریم کورٹ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ قانون نے کیا کہا ہے، اس فیصلے کے حوالے سے آپ کی تنقید بلاجواز تھی، موجودہ چیف جسٹس کے عہدہ سنبھالنے کے بعد ہی عوامی اہمیت کے مقدمات براہ راست نشر ہونے لگے، چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے مقدمات لائیو نشر کرنے کی اجازت دی، پاکستانی عوام سپریم کورٹ کی کارروائی کو مکمل طور پر دیکھ سکتی ہے۔

رجسٹرار سپریم کورٹ کے خط میں مزید کہا گیا کہ مقدمات لائیو نشرکرنے سے عوام کو بھی شفافیت اور فیصلوں سے متعلق علم ہوگا، انٹراپارٹی الیکشن اور پارٹی نشانات سے متعلق فیصلہ بھی براہ راست نشر کیا گیا بھی براہ راست نشرکیا گیا تھا۔