سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیس کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنے مؤکل کو مشکل میں ڈال رہے ہیں، اگر نیب ترامیم کالعدم ہوئیں تو نقصان آپ کے مؤکل کا ہو گا۔
نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں فل کورٹ بینچ کر رہا ہے۔
وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ تحریری معروضات میں عدالتی فیصلے کے مختلف نکات کی نشاندہی کی ہے، میں نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر اپنے دلائل تحریر کیے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا آپ اپنی معروضات عدالت میں جمع کرا دیں،کیا آپ فیصلے کو سپورٹ کر رہے ہیں؟ جس پر فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا میں جسٹس منصور علی شاہ کے نوٹ کو سپورٹ کر رہا ہوں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کیا آپ مخدوم علی خان کے دلائل اپنا رہے ہیں؟ جس پر فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا میرا مؤقف وہی ہے لیکن دلائل میرے اپنے ہیں۔
سپریم کورٹ کی جانب سے معاونت کے لیے بلائے گئے وکیل خواجہ حارث عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کیا آپ کے مؤکل 90 روز کے ریمانڈ سے مطمئن تھے؟ نیب جس انداز میں گرفتاریاں کرتا تھا کیا وہ درست تھا؟
وکیل خواجہ حارث نے کہا نیب میں بہت سی ترامیم اچھی ہیں، 90 روز کے ریمانڈ سے مطمئن تھے نہ گرفتاریوں سے، جو ترامیم اچھی تھیں انہیں چیلنج نہیں کیا گیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا نیب آرڈیننس کب آیا تھا؟ جس پر وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ نیب قانون 1999 میں آیا تھا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا 1999 میں کس کی حکومت تھی؟ نام لے کر بتائیں، خواجہ حارث نے کہا 1999 میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی، پرویز مشرف سے قبل نواز شریف کے دور حکومت میں اسی طرح کا احتساب ایکٹ تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے آپ کے مؤکل کی حکومت آئی تو احتساب ایکٹ بحال کر دیتے، پرویز مشرف نے تو کہا تھا نیب کا مقصد کرپٹ سیاستدانوں کو سسٹم سے نکالنا ہے، بانی پی ٹی آئی کی درخواست پر بھی کچھ ایسا ہی تھا۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا ہماری درخواست میں کسی سیاستدان کا نام نہیں لکھا گیا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے بظاہر بانی پی ٹی آئی کی حکومت بھی صرف سیاستدانوں کا احتساب چاہتی تھی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ خواجہ حارث صاحب چلیں آپ میرٹ پر دلائل دے دیں جبکہ چیف جسٹس نے پوچھا پریکٹس اینڈ پروسیجر کے بعد نیب ترامیم پر بینچ کیسے بنا؟ وجہ بتائیں۔
خواجہ حارث نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ کے نوٹ میں طے ہو چکا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کا بینچ اس فیصلے کا حصہ بن چکا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر التوا درخواست کو واپس لگانے کی کوشش کیوں نہیں ہوئی؟ باہر کیمرے پر جا کر گالیاں دیں گے یہاں آکر ہمارے سامنے تنقید کریں نا؟
نیب ترامیم کالعدم ہوئی تو نقصان آپ کے مؤکل کا ہو گا، جسٹس اطہر کا خواجہ حارث کے وکیل سے مکالمہ
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہائیکورٹ کے ذریعے اٹارنی جنرل کو نوٹس ہوا تھا، اٹارنی جنرل نے کیوں کوشش نہیں کی کہ کیس دوبارہ لگے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا اس وقت موسم گرما کی تعطیلات شروع ہو چکی تھیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ جب پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون بنا تو میں نے عدالت میں بیٹھنا ہی چھوڑ دیا تھا، اس وقت بحث چل رہی تھی کہ اختیار میرا ہے یا کسی اور کا ہے، بابر جا کر بڑے شیر بنتے ہیں لیکن سامنے آکر اس پر مجھ سے کوئی بات نہیں کرتا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اس کیس کی جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی اور ایم آئی جیسے طاقتور ادارے تھے، بتائیں اس کیس کا کیا بنا؟
خواجہ حارث نے کہا طاقتور اداروں کی موجودگی کے باوجود اس کیس میں کچھ ثابت نہ ہو سکا، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا خواجہ صاحب بتا دیں کون کونسی ترامیم کو چیلنج کیا گیا تھا، آپ نے سیکشن 9 فائیو اے میں ترامیم کو چیلنج کیا تھا، سیکشن 14 کے حذف کرنے کو چیلنج کیا تھا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا نیب کا مقصد ہی سیاسی انجینئرنگ کے لیے تھا، خواجہ حارث صاحب، آپ اپنے مؤکل کو مشکل میں ڈال رہے ہیں، نیب ترامیم کالعدم ہوئیں تو آپ کے مؤکل کو نقصان ہو گا۔