چو این لائی کی باریک بینی

روزنامہ آج میں شائع ہونے والے بعض کتابوں سے اقتباس کیلئے قارئین کی جانب سے دوبارہ اشاعت کا کہا جاتا ہے قارئین کی پسند کو مدنظر رکھتے ہوئے آج کا شائع ہونے والا اقتباس قدرت اللہ شہاب کی کتاب”شہاب نامہ“کا منتخب حصہ ہے جو کہ قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔وزیراعظم چو این لائی کی گفتگو کو مسٹر خراس اور میں قلمبند کرنے کی کوشش کررہے تھے یوں تو وہ صرف چینی زبان بولتے تھے لیکن یقیناً انہیں انگریزی زبان پر بھی ضرور عبور حاصل ہوگا ان کا ترجمان جب ان کی گفتگو کا انگریزی میں ترجمہ کرتا تھا تو کئی بار مسٹر چو این لائی اسے ٹوک کر اس کے ترجمہ کی اصلاح بھی کر دیتے تھے۔ جب مسٹر چو این لائی واقعات عالم پر تبصرہ کررہے تھے ایک چینی لڑکی وقتاً فوقتاً ہمیں چینی چائے کے تازہ مگ تقسیم کرتی رہتی تھی‘ یہ ابلتا ہوا گرم پانی تھا جس میں چائے کی ایک یا دو پتیاں تیر رہی ہوتی تھیں‘اس میں دودھ یا شکر ملانے کا رواج نہ تھا‘ چائے ڈھانپنے کے لئے ہر مگ کا ایک خوبصورت سا ڈھکنا بھی ہوتا تھا‘ اچانک میں نے محسوس کیا کہ وزیراعظم چو این لائی روانی سے بولتے بولتے کسی قدر ٹھٹھک جاتے ہیں اور ان کی نگاہیں بار بار میری جانب اٹھ رہی ہیں‘ مجھے خیال آیا کہ شاید میرے بیٹھنے کے انداز میں کوئی کجی یا قباحت پیدا ہوگئی ہے‘ میں نے فوراً پینترا بدل کر پہلو تبدیل کر لیا لیکن اس کے باوجود مسٹر چو این لائی کی نظریں بدستور میری طرف اٹھتی رہیں‘ اس پر پریشان ہو کر میں کسی قدر جھینپا تو انہوں نے چائے تقسیم کرنے والی لڑکی کو بلا کر کچھ کہا‘وہ میرا مگ اٹھا کر ان کے پاس لے گئی‘ مسٹر چو این لائی نے مگ کا ڈھکن اٹھا کر اسے دکھایا کہ یہ چھوٹا ہے اور اس مگ پر اچھی طرح نہیں جمتا لڑکی کا چہرہ عرق ندامت میں شرابور ہوگیا اور وہ جا کر میرے لئے چائے کا ایک اور مگ لے آئی‘اس کے بعد مسٹر چو این لائی سکون سے بیٹھ گئے اور اپنے تبصرے میں بدستور مصروف ہوگئے‘ ایک نہایت سنجیدہ تجزئیے کے دوران ایک انتہائی کثیر المشاغل شخص کے ذہن کا اس قدر باریک تفصیل کی طرف منتقل ہونا میرے لئے بے حد حیرت ناک تھا۔ایک آفیسر میاں محمد سعید کو راولپنڈی سے پچاس ہزار روپے کی رقم دے کر تنخواہیں تقسیم کرنے کیلئے پلندری بھیجاگیا‘آزاد کشمیر کے علاقے میں جیپ پھسل کر ایک گہری کھڈ میں جاگری‘ میاں سعید کو نہایت شدید زخم آئے اور بہت سی ہڈیاں بھی ٹوٹ گئیں‘ اپنی تکلیف بھلا کر انہوں نے پچاس ہزار روپے کی رقم کا بیگ اپنی بغل میں دبایا اور اس کی حفاظت کرنے کیلئے مستعد ہوکر بیٹھ گئے‘ حادثہ کی خبر سن کر آس پاس کے بہت سے دیہاتی بھی جائے وقوعہ پر جمع ہوگئے‘ انہیں جب معلوم ہوا کہ شدید زخموں کے باوجود میاں صاحب سرکاری رقم کی حفاظت کی وجہ سے پریشان ہیں تو سب نے مل کر بہ یک آواز درخواست کی کہ وہ آرام سے لیٹ جائیں‘یہ رقم بیت المال کی امانت ہے‘ اس کی حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے۔ کئی گھنٹوں کے بعد جب ایک امدادی ٹیم وہاں پہنچی تو میاں صاحب زخموں کی تاب نہ لاکر نڈھال ہوچکے تھے اور سرکاری رقم دیہاتیوں کی حفاظت میں جوں کی توں موجود تھی‘جس مقام پر اب منگلا ڈیم واقع ہے وہاں پر پہلے میرپور کا پرانا شہر آباد تھا‘ ایک روز میں ایک مقامی افسر کو اپنی جیپ میں بٹھائے اس کے گرد ونواح میں گھوم رہا تھا‘ راستے میں ایک مفلوک الحال بوڑھا اور اس کی بیوی ایک گدھے کو ہانکتے ہوئے سڑک پر آہستہ آہستہ چل رہے تھے‘ انہوں نے اشارے سے ہماری جیپ کو روک کر دریافت کیا ’بیت المال کس طرف ہے؟‘آزاد کشمیر میں سرکاری خزانے کو بیت المال ہی کہاجاتا تھا‘ میں نے پوچھا’بیت المال میں تمہارا کیا کام ہے؟‘بوڑھے نے سادگی سے جواب دیا ’میں نے اپنی بیوی کے ساتھ مل کر میرپور شہر کے ملبے کو کُرید کُرید کر سونے اور چاندی کے زیورات کی دو بوریاں جمع کی ہیں‘ اب انہیں اس کھوتی پر لاد کر ہم بیت المال میں جمع کروانے جارہے ہیں‘ہم نے ان کا گدھا ایک پولیس کانسٹیبل کی حفاظت میں چھوڑا اور بوریوں کو جیپ میں رکھ کر دونوں کو اپنے ساتھ بٹھالیا تاکہ انہیں بیت المال لے جائیں‘آج بھی جب وہ نحیف و نزار اور مفلوک الحال جوڑا مجھے یادآتا ہے تو میرا سر شرمندگی اور ندامت سے جھک جاتا ہے کہ جیپ کے اندر میں ان دونوں کے برابرکیوں بیٹھا رہا‘ مجھے تو چاہئے تھا کہ میں ان کے گرد آلود پاؤں اپنی آنکھوں اور سر پر رکھ کر بیٹھوں۔