سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ’عوام پاکستان پارٹی‘ کو 6 جولائی کو لانچ کرنے کا اعلان کردیا۔ نوتشکیل شدہ سیاسی جماعت کے کنوینر شاہد خاقان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی تاریخ کا بدترین بجٹ پاس کیا گیا ہے، بجٹ میں پھر مفاد پرست ٹولے کو چھوٹ دے دی گئی ہے، حکومت کو سب سے پہلے اپنے اخراجات میں کمی کرنی چاہیے تھی۔
سیاستدان شاہد خاقان عباسی نے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے ہمراہ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہم کس قسم کی حکومت چلارہے ہیں، ہماری سوچ کیا ہے کہ ہم اپنے اخرجات کم نہیں کریں گے لیکن عوام پر مزید بوجھ ڈالتے رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ بجٹ پاکستان کی تاریخ کا بدترین بجٹ ہے، یہ بجٹ عوام اور ملکی معیشت کے لیےتباہ کن ثابت ہوگا، اس بجٹ میں سارا بوجھ تنخواہ دار طبقے پر ڈال دیا گیا ہے، دودھ اور بچے کی خوراک پر بھی ٹیکس لگادیا گیا ہے، میڈیکل آلات پر بھی ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ٹیکس لگانے سے پہلے حکومت کو اپنے اخراجات کم کرنے چاہیے تھے، اپنے اخراجات کم نہیں کررہے اور عوام پر بوجھ ڈال رہے ہیں، ان حالات میں معیشت کیسے آگے بڑھے گی، ابھی 500 ارب روپے ایم این ایز اور ایم پی ایز کو بانٹے جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملکی سود 1500 ارب سے 6000 ارب روپےتک پہنچ گیا ہے، ملکی آمدن کا 25 فیصد حکومت پر خرچ ہورہا ہے، ٹیکس کا بوجھ ان پر ڈالا گیا جو پہلے سے ہی ٹیکس ادا کر رہے ہیں، بجٹ میں پھر مفاد پراست ٹولے کو چھوٹ دے دی گئی، 30 ہزار ارب میں سے صرف 500 ارب غریبوں کے لیے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ عوام پاکستان پارٹی 6 جولائی کو لانچ کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سیکڑوں ارب کے سگریٹ بنتے ہیں جس کی چوری کھلم کھلا ہورہی ہے، کیا ایف بی آر نہیں جاتنا ملک میں کتنے سگریٹ استعمال ہورہے ہیں اور کتنے پر وہ ٹیکس اکھٹا کر رہے ہیں، کیا ہم اتنے کمزور ہیں کہ سگریٹ بنانے والوں سے بھی ٹیکس اکھٹا نہیں کرسکتے۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہم 20 سے 22 فیصد چھوٹ پر قرضے لے کر عوام پر مزید بوجھ ڈالتے ہیں، جس ملک کا سود 6 سال میں 1500 ارب سے 10 ہزار ارب تک پہنچ جائے، آج پاکستان کا سب سے بڑا خرچہ، یہ جو تمام حکومتیں 30 ہزار ارب ملکر خرچ کریں گی، اس میں ایک تہائی یعنی 10 ہزار ارب سود ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ملک کس طرح چلے گا، ماضی میں کچھ جگہ ہوا کرتی تھی، ہم غلط فیصلے کرتے تھے، یہ پیسے ایم این اے اور ایم پی ایز میں بانٹتے تھے، گزارہ ہوجاتا تھا، لیکن آج تو جگہ ہی نہیں ہے کہ اس قسم کی عیاشیاں برداشت کرسکیں، آج تو ہمیں اپنے اخراجات کم کرنے کی ضرورت ہے۔
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ مہنگائی کی بات کریں تو جو ریٹیلر رجسٹرڈ ہیں، وہ مال کی خرید وفروخت پر آدھا فیصد اضافی ٹیکس اد اکریں گے، اور غیر رجسٹرڈ ریٹیلر ڈھائی فیصد ٹیکس دیں گے، جب کہ 30 لاکھ میں سے صرف ایک لاکھ رجسٹرڈ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ پیسے بھی پاکستان کے عوام کی جیب سے نکلے گا، لیکن یہ جو ایل پی جی اور ڈیزل کی اسمگلنگ ہورہی ہے، اس کو کوئی نہیں چھیڑے گا جو سیکڑوں ارب کے سگریٹ فروخت ہورہے ہیں، اس کا کوئی نہیں پوچھے گا۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 2018 میں آئینی ترمیم کے ذریعے جب فاٹا کا انضمام ہوا تھا، وہاں موجود انڈسٹریز کو 5 سال ٹیکس چھوٹ دی گئی تھی جو اس سے پہلے موجود تھی تاکہ وہ اپنا بندوبست کرلیں، یہ فیکٹریاں بغیر سیلز ٹیکس اور بغیر ڈیوٹی کے فاٹا میں مال بناتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ وہاں موجود انڈسٹریز فاٹا کے عوام کو کوئی فائدہ پہنچاتی ہیں، وہاں طاقتور لوگ موجود ہیں، باہر سے لوگوں نے وہاں انڈسٹریز لگائی ہوئی ہیں، اور آج انہوں نے حکومت کو بلیک میل کرکے ایک بار پھر ٹیکس استثنیٰ حاصل کرلیا ہے۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ میری گزارش ہے کہ اگر آپ فاٹا کے عوام سےہمدردی کرنا چاہتے ہیں تو ان انڈسٹریز پر وہی ٹیکس لگائیں جو پاکستان کے باقی علاقوں میں ہیں، کیوں کہ فاٹا اب پاکستان کا حصہ ہے، اور وہاں سے ٹیکس کی مد میں جو بھی رقم ملے وہ فاٹا کے عوام پر خرچ کریں اور ان سے جو وعدے کیے گئے تھے وہ پورے ہونے چاہیے، وہاں سڑکیں، اسکول اور ہسپتال بناکر فاٹا کو دیگر علاقوں کے بربار لائیں۔
انہوں نے کہا کہ آپ جو بھی زمین اور مکان فروخت کریں گے جس پر ڈھائی سے 4 فیصد تک ٹیکس عائد کردیا گیا ہے، اور اس میں حاضر سرور اور ریٹائرڈ ملٹری اور بیوروکریسی کے لوگوں کو چھوٹ دے دی، یہ ایسا راستہ کھولا گیا ہے جو ہر معاملے کو خراب کرے گا، میں شہداء کے لواحقین کے حق میں ہوں کہ انہیں یہ چھوٹ دینی چاہیے۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ آج بھی نان فائلرز کیٹگری موجود ہے، ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے، سرکاری ٹیکس صرف تنخواہ دار طبقے سے لیا جارہا ہے، اسمبلیاں صرف ہاں یا نہیں کرنے کے لیے نہیں ہوتیں، اسمبلیاں بحث کرنے کے لیے ہوتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہماری ایکسپورٹ ہے، ہمیں ہماری ایکسپورٹ برھانی چاہیے۔
انہوں نے سوال کیا کہ کیا ارکان اسمبلی ٹیکس دیتے ہیں؟ ارکان اسمبلی کروڑوں روپے مالیت کی گاڑیوں میں گھومتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ابھی بھی وقت ہے بجٹ پر نظر ثانی کرلی جائے، فاٹا کو ملک کے باقی علاقوں کے برابر لائیں، غیر ضروری منسٹری کو ختم کرنے میں ہی ملک کا فائدہ ہوگا، ن لیگ سے کوئی ناراضگی نہیں ہے۔
اس موقع پر مفتاح اسماعیل نے کہا کہ بجلی اور گیس کی قیمتیں مزید بڑھیں گی، آئی ایم ایف نے زرعی ٹیکس لگانے کا کہا تھا، حکومت نے ٹیکس نہیں لگایا،آئی ایم ایف نے نہیں کہا تھا کہ 24 فیصد اخراجات بڑھا دیں۔