مضمحل جو بائیڈن اور امریکی صدارت

 جمعرات کے صدارتی مباحثے سے بہت پہلے یہ کہا جا رہا تھا کہ صدر بائیڈن کی عمر اس وقت 81 برس سے زیادہ ہے اور اگر وہ دوبارہ صدر منتخب ہو جاتے ہیں تو دوسری مدت صدارت کے آخر میں ان کی عمر 86 برس ہوگی۔ لوگ پوچھ رہے تھے کہ کیا اتنے معمر اور ضعیف شخص کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں صحیح سلامت ہوتی ہیں۔ وہ شخص اگر ایک عالمی طاقت کا سربراہ ہو تو کیا وہ گنجلک مسائل کے بارے میں موثر اور معروضی سوچ بچار کر سکتا ہے۔ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ وہ مستقل طور پر صاحب فراش نہ ہو گا۔ ان سوالوں کے جواب میں صدر بائیڈن کے قریبی دوست کہتے تھے کہ نہیں‘ وہ اتنا بوڑھا تو نہیں ہے۔ صدر امریکہ کے پرانے دوست ان کے دفاع میں یہ بھی کہتے تھے کہ نیوز میڈیا خوا مخواہ ہاتھ دھو کر ان کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ری پبلکن پارٹی کے حمایتی نیوز چینل ہر روز ان کی ادھیڑ عمری پر تبصرے کر کے لوگوں کو ان سے بد ظن کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور پھر پہلا صدارتی مباحثہ ہو گیا۔ اب وائٹ ہاؤس میں صدر بائیڈن کی ٹیم کے لئے اپنے صدارتی امیدوار کا دفاع نہایت مشکل ہو گیا ہے۔ اس مباحثے میں جو بائیڈن کی کارکردگی اتنی کمزور اور ناقص تھی کہ اب ان کی اپنی ڈیموکریٹک پارٹی کے لیڈر اور ایسے نیوز اینکر جو چند روز پہلے تک ان کے مداح تھے اب کھلم کھلا ان سے اس مقابلے سے دستبردار ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ صدر بائیڈن کے دوست اور مداح ٹام فریڈمین جو ایک ممتاز کالم نگار بھی ہیں نے 30 جون کے کالم میں لکھا ہے کہ ”میں نے یہ مباحثہ دیکھا اور میں رو پڑا۔ میں نے اس سے پہلے کبھی بھی ایسا صدارتی مباحثہ نہیں دیکھا جو میرے لئے اتنا حوصلہ شکن ثابت ہوا ہو۔ وجہ اس کی یہی تھی کہ صدر بائیڈن مضمحل اور مرجھائے ہوئے نظر آ رہے تھے۔“ ٹام فریڈمین نے اس خیال کا اظہار بھی کیاکہ ”جو بائیڈن ایک اچھا انسان اور ایک اچھا صدر ہے مگر اب اسے اس صدارتی مقابلے میں حصہ نہیں لینا چاہیئے۔“ نیو یارک ٹائمز کے کالم نگا ر نے جو بائیڈن کی فیملی اور قریبی دوستوں کو یہ مشورہ دیا ہے کہ اب انہیں حالت انحراف سے باہر آ کر صدر بائیڈن سے ایک سخت اور حقیقت پسندانہ مکالمہ کر کے انہیں صاف صاف کہہ دینا چاہئے کہ انہوں نے ساری عمر جس ملک کی خدمت کی ہے اب اس کی بہتری کے لئے انہیں چاہئے کہ وہ اپنے ذاتی مفاد اور خواہشات کو بھلا کر دوبارہ صدر بننے کا ارادہ ترک کر دیں۔اس مباحثے کے ختم ہونے سے پہلے ہی ڈیموکریٹک پارٹی کے لیڈروں نے صدر بائیڈن کی تھکی تھکی گفتگو‘ ادھورے جملے اور بے ربط جوابات سن کر انٹرنیٹ پر اپنی تشویش اور مایوسی کا اظہار کرنا شروع کر دیا تھا۔ اگلے روز کے مارننگ نیوز شوز میں صدر بائیڈن کے حامی نیوز اینکرز نے بھی انہیں مشورہ دیا کہ وہ اس مقابلے سے دستبردار ہو جائیں۔ مگر ایساہوتا ہو انظر نہیں آ رہا کیونکہ ڈیموکریٹک پارٹی کے سر بر آوردہ لیڈر جن میں بل کلنٹن‘ براک اوباما اور صدر بائیڈن کی اہلیہ جل بائیدن شامل ہیں یہ نہیں چاہتے کہ وہ ہتھیار پھینک دیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صدر بائیڈن کی دستبرداری کے بعد ڈیموکریٹک پارٹی میں جو ہنگامہ آرائی شروع ہو گی وہ نہایت نقصان دہ ہوگی۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے بعض دانشور بل کلنٹن اور براک اوباما کی اس رائے سے متفق ہیں کہ صدر بائیڈن کی رخصتی کے اعلان کے ہوتے ہی درجن بھر گورنرز اور سینیٹرز میدان میں اتر آئیں گے۔ وہ اپنی صدارتی مہم کا آغاز کر کے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کریں گے۔ یوں ڈیموکریٹس مختلف دھڑوں میں تقسیم ہو جائیں گے۔ اس کے بعد یہ ضمانت کون دے گا کہ کوئی ایسا امیدوار سامنے آئے گا جو پارٹی کو متحد رکھنے کے علاوہ چار ماہ کے قلیل عرصے میں ایسی انتخابی مہم بھی چلا سکے جو اسے وائٹ ہاؤس تک پہنچا دے۔بعض ماہرین کی رائے میں انیس اگست کو شکاگو میں ہونے  والے ڈیمو کریٹک پارٹی کے کنونشن میں نئے صدارتی امیدواروں کے درمیان کھلا مقابلہ ہونا چاہئے۔ جو امیدوار خود کو زیادہ با صلاحیت ثابت کر دے اسی کو موقع دیا جانا چاہئے۔ لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ صدر بائیڈن صدارتی مقابلے سے دستبردار ہو کر اپنے Delegates یا نمائندوں کو اجازت دیں کہ وہ اپنی پسند کے نئے امیدوار کی حمایت کریں۔ صدر بائیدن فی الحال ایسا کرتے ہوئے نظر نہیں آرہے اس لئے اس کنونشن میں Open Contest یا کھلے مقابلے کا امکان نظر نہیں آ رہا۔ ایسا اگر ہو جاتا ہے تو پھر ڈیموکریٹک پارٹی میں تندو تیز اور شعلہ بیاں لیڈروں کی کوئی کمی نہیں۔ مشی گن کی خاتون گورنر Gretchen Whitmer‘ پنسلوانیا کے گورنر Josh Shapiro‘ کنٹکی کے گورنر Andy Beshear ‘ کیلی فورنیا کے گورنر Gavin Newsom اور چند سینیٹرز کا شمار ایسے با صلاحیت لیڈروں میں ہوتا ہے جو بڑی آسانی سے ڈونلڈ ٹرمپ کو منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں۔ یہاں اہم سوال یہ ہے کہ نائب صدر کاملہ ہیرس کو کیوں نظر انداز کیا جارہا ہے۔ انہیں اگر صدر بائیدن کے جانشین کے طور پر سامنے نہ لایا گیا تو ڈیموکریٹک پارٹی میں ان کی اپنی ایک مضبوط لابی ہے جو کسی بھی دوسرے صدارتی امیدوار کی حمایت نہیں کرے گی۔ ہو سکتا ہے کہ اس دھڑے بندی سے بچنے کے لئے صدر بائیدن ہی کو ڈونلڈ ٹرمپ سے ایک مرتبہ پھر پنجہ آزمائی کا موقع دیا جائے۔ مگر جمعرات کی شام ڈیبیٹ کے سٹیج پر بیمار اور مضمحل نظر آنے والے جو بائیڈن کو امریکی عوام کیسے بھلا سکیں گے۔ اب تو ری پبلکن پارٹی کے لیڈر یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ شی جن پنگ اور ولادیمیر پیوٹن مغربی دنیا کے لیڈر جو بائیڈن کو اس شام سٹیج پر دیکھ کر قہقہے لگا رہے تھے۔