حکومت ممکنہ طور پر ججوں کی رضامندی کے بغیر ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں ان کے تبادلے کے حوالے سے آئینی شق میں تبدیلی کر سکتی ہے۔
وزارت قانون میں ہونے والی بات چیت سے باخبر ذرائع نے بتایا کہ آئین کے ہائی کورٹ کے ججوں کے تبادلے سے متعلق آرٹیکل 200 میں ترمیم نام نہاد ’آئینی پیکیج‘ کے اجزا میں سے ایک ہے جسے حکومت کی لیگل ٹیم کی جانب سے حتمی شکل دی جارہی ہے۔
موجودہ قانون کے مطابق صدر کسی ہائی کورٹ کے جج کو دوسری ہائی کورٹ میں منتقل کر سکتا ہے، لیکن کسی بھی جج کو ان کی رضامندی اور صدر کی طرف سے چیف جسٹس آف پاکستان اور دونوں ہائیکورٹس کے چیف جسٹس کے ساتھ مشاورت کے بغیر تبدیل نہیں کیا جائے گا۔
ذرائع نے بتایا کہ اس آرٹیکل میں مجوزہ ترمیم میں لفظ ’ان (ججز) کی رضامندی‘ کو ختم کردیا جائے گا، اس کے بعد حکومت چیف جسٹس اور تبادلہ دینے اور لینے والی عدالتوں کے چیف جسٹس کی مشاورت سے جج کا تبادلہ کرنے کے قابل ہو سکتی ہے۔
یاد رہے کہ ابتدائی طور پر 5ویں ترمیم کے ذریعے آئین میں شامل کیے جانے والے مذکورہ آرٹیکل کے ایک پرووایزو میں صدر کو اجازت دی گئی تھی کہ وہ جج کو ان کی رضامندی یا مشاورت کے بغیر ٹرانسفر کر سکتے ہیں۔
تاہم، 18ویں ترمیم نے اس شرط کو ختم کر دیا اور جج کی رضامندی سے تبادلے کو مشروط کر دیا تھا۔
ماضی میں کچھ جج ایسے تھے جن کا ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں تبادلہ ہوا، فروری 2008 میں لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس سردار محمد اسلم کا اسلام آباد ہائی کورٹ میں تبادلہ کر دیا گیا، جب کہ 2009 میں لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس ایم بلال خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر تبدیل کر دیا گیا۔
تاہم اس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کو ختم کر دیا گیا کیونکہ یہ ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کے جاری کردہ عبوری آئینی آرڈر (پی سی او) کے تحت تشکیل دیا گیا تھا۔
18ویں ترمیم کے تحت اسلام آباد ہائی کورٹ کے دوبارہ قیام کے بعد لاہور ہائی کورٹ کے ایک اور جج جسٹس اقبال حمید الرحمن کو اسلام آباد ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنا دیا گیا تھا۔
ماضی قریب میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد انور خان کاسی کی ریٹائرمنٹ سے کچھ دن پہلے اہور ہائی کورٹ اور بلوچستان ہائی کورٹ کے ججوں کو اس اعلیٰ عہدے کے لیے چنا گیا تھا۔
تاہم وکلا تنظیموں نے مطالبہ کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے اندر سے کسی جج کو چیف جسٹس بنایا جائے، بالآخر جسٹس اطہر من اللہ کو اس عہدے پر فائز کر دیا گیا تھا۔
سینئر وکیل راجا انعام امین منہاس نے کہا کہ آرٹیکل 200 سول اور ملٹری بیوروکریسی کی پوسٹنگ/ ٹرانسفر کے قوانین کے حوالے سے ہے۔
انہوں نے رائے دی کہ لفظ رضامندی نے اس آئینی شق کو عملی طور پر غیر فعال کر دیا ہے کیونکہ جج اس کے تبادلے کے لیے رضامندی دیتا ہے اگر اس سے جج کی ترقی ہو تو، انہوں نے مزید کہا کہ ’پیرالل شفلنگ‘ کی کوئی مثال نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ قانون سازوں نے اس آرٹیکل کو آئین میں اس لیے شامل کیا ہے تاکہ صدر اور چیف جسٹس کو ہائی کورٹ کے ججوں کی تعیناتی کا اختیار دیا جائے۔
دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن (آئی ایچ سی بی اے) کے صدر ریاست علی آزاد نے کہا کہ اگرچہ وفاقی دارالحکومت کے وکلا عرصہ دراز سے ضلعی عدلیہ کے ججز کی تبدیلی کے خواہاں ہیں لیکن وہ اس خاص موڑ پر ہائی کورٹ کے ججوں کے تبادلے کے لیے آئینی شق میں کسی ترمیم کی حمایت نہیں کر سکتے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ حکومت بظاہر بد نیتی کے ساتھ قانون میں ترمیم کر رہی ہے، تاہم انہوں نے کہا کہ اگر حکومت متعلقہ اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد اسے کسی اور وقت متعارف کرائے تو یہ قابل قبول ہوگا، حکمران اتحاد کے پاس آئین میں ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت نہیں ہے اور کئی سابقہ قانون سازی ابھی بھی پائپ لائن میں ہے۔
ایک سینئر حکومتی اہلکار نے بتایا کہ اس بل کو جلد ہی پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیے جانے کا امکان ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکمران اتحاد اس بل کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور کرانے میں کامیاب ہو جائے گا۔
باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کے قانونی مشیر اس معاملے پر خاموشی سے کام کر رہے ہیں اور ترمیم کا مسودہ تیار کر لیا گیا ہے۔
تبصرے کے لیے رابطہ کرنے پر وزارت قانون و انصاف کے سیکریٹری راجہ نعیم اکبر نے اس پیشرفت سے لاعلمی کا اظہار کیا۔
انہوں نے بتایا کہ انہیں قانون سازی کا مسودہ تیار کرنے کی ہدایت نہیں کی گئی ۔
دوسری جانب وزارت کے ایک اور اہلکار نے کہا کہ قانون سازی کے لیے تجاویز دینا وزارت کا کام ہے، انہوں نے بتایا کہ وزارت بعض اوقات اہم آئینی دفعات میں مجوزہ ترامیم کے لیے متعلقہ حلقوں سے معلومات حاصل کرتی ہے۔
تاہم، انہوں نے مزید کہا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وزارت متعلقہ حلقوں سے مانگی گئی ہر رائے پر مبنی بل پیش کرے گی۔