قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم کالعدم قرار دینےکے خلاف سپریم کورٹ میں دائر اپیلوں پر فیصلہ آج سنایا جائے گا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کازلسٹ کے مطابق فیصلہ صبح ساڑھے 9 بجے سنایا جائےگا۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلیں دائر کی تھی۔ سپریم کورٹ نے 6 جون کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں3 رکنی بینچ آج فیصلہ سنائےگا۔
خیال رہے کہ پی ڈی ایم کے دور حکومت میں نیب ترامیم منظور کی گئی تھیں۔ نیب قوانین کے سیکشن 2، 4، 5، 6، 14, 15, 21, 23، 25 اور 26 میں ترامیم کی گئی تھیں۔
نیب ترامیم کے خلاف بانی پی ٹی آئی عمران خان نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے 5 ستمبر 2023 کو کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
سپریم کورٹ نے 15 ستمبر 2023 کو بانی پی ٹی آئی کی درخواست منظور کرتے ہوئے نیب ترامیم کالعدم قرار دے دی تھیں۔ سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کی 10 میں سے 9 ترامیم کالعدم قرار دی تھیں۔
عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے سپریم کورٹ میں انٹراکورٹ اپیلیں دائر کی تھیں۔
بانی پی ٹی آئی نے نیب ترامیم کیس میں دائر اپیلوں پر ذاتی حیثیت میں دلائل دینے کی درخواست دائر کی تھی۔
سپریم کورٹ نے 10 مئی 2024 کو انٹرا کورٹ اپیلیں سماعت کے لیے مقرر کرتے ہوئے 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔ 5 رکنی لارجر بینچ نے بانی پی ٹی آئی کی بذریعہ ویڈیو لنک پیشی کی اجازت دی تھی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے 6 جون کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی بینچ میں شامل ہیں۔
نیب ترامیم کے اہم نکات
نیب ترامیم کے تحت بہت سے معاملات کو نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیا گیا تھا۔ نیب ترامیم کو قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے آغاز سے نافذ قرار دیا گیا تھا۔
نیب ترامیم کے تحت قرار دیا گیا کہ نیب 50 کروڑ سے کم مالیت کے معاملات کی تحقیقات نہیں کرسکتا۔ ترمیم کے تحت نیب دھوکہ دہی مقدمے کی تحقیقات تبھی کرسکتا ہے جب متاثرین 100سے زیادہ ہوں۔
نیب ترامیم کے تحت ملزم کا زیادہ سے زیادہ 14 دن کا ریمانڈ لیا جاسکتا تھا جسے بعد میں 30 دن تک بڑھا دیا گیا۔
ترامیم کے تحت نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکتا تھا۔ ترامیم کے تحت ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو نیب دائرہ کار سے نکال دیا گیا تھا۔
نیب ترامیم کے تحت افراد یا لین دین سے متعلق زیر التوا تمام پوچھ گچھ، تحقیقات، ٹرائلز متعلقہ اداروں اور عدالتوں کو منتقل کردی گئیں۔