غزہ سے لبنان تک

 گذشتہ گیارہ ماہ میں اسرائیل نے غزہ سے لبنان تک اپنی عسکری طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔ اکتالیس ہزار فلسطینیوں کو غزہ میں سفاکی سے ہلاک کرنے کے بعد اب اسرائیلی طاقت کے عفریت نے لبنان کا رخ کیا ہے۔ منگل کے دن بیروت میں ہزاروں شہریوں کے Pagersسے پہلے دھواں نکلنے لگا اور پھر یہ ایک دھماکے سے پھٹ گئے۔ اس روز بارہ افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ یہ پیجرز اس وقت پھٹے جب لوگ روز مرہ کے کام کاج میں مصروف تھے۔ کوئی گروسری سٹورز میں خریداری کر رہا تھا‘ کوئی فٹ پاتھ پر چل رہا تھا‘ کوئی اپنے گھر میں تھا تو کوئی دفترمیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق یہ پیجرز کسی کے ہاتھ میں تھے‘ کسی کی جیب میں یا گھر میں کہیں پڑے ہوئے تھے۔ اسرائیل نے اگر چہ کہ ان دھماکوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی مگر حزب اللہ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل نعیم قسیم نے کہا ہے کہ ہم ”اسرائیل کیساتھ کھلی جنگ کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں۔ کل رات جو کچھ ہوا وہ ہمارے رد عمل کا آغاز تھا۔ ہم انہیں وہاں ماریں گے جہاں انہیں توقع ہو گی اور ہم انہیں وہاں بھی ماریں گے جہاں انہیں توقع نہیں ہو گی۔“ نعیم قسیم نے اس بیان میں اس حملے کا ذکر کیا ہے جس میں حزب اللہ نے ڈیڑھ سو سے زیادہ کروز میزائل‘  راکٹ اور ڈرونز اسرائیل کے سرحدی قصبوں پر بر سائے۔ تل ابیب کے فوجی ترجمان نے کہا ہے کہ ان میں سے بیشتر کو فضا ہی میں روک دیا گیا اور جو نشانے تک جا پہنچے ان کی وجہ سے صرف چند افراد زخمی ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے اتوار کے روز اسرائیل نے بیروت کے مضافات میں ایک فضائی حملے میں حزب اللہ کے تین کمانڈر ہلاک کئے تھے۔ اس کے بعد بدھ کے روز سینکروں افرادکے زیر استعمال واکی ٹاکیز پراسرار انداز میں پھٹ گئے۔ اس حملے میں پچیس افراد ہلاک اور سو سے زیادہ زخمی ہوئے۔  روز مرہ استعمال کے ٹیکنیکل آلات کا اس طرح ہاتھوں میں پھٹ جانے کے بعد ایک طرف اسرائیل حزب اللہ جنگ ایک نئے اور خطرناک دور میں داخل ہو گئی ہے تو دوسری طرف اس سوال نے جنم لیا ہے کہ یہ سب کچھ آخر کیسے ممکن ہوا۔ امریکی اخبارات کے مطابق دھماکہ خیز مواد پہلے ان آلات میں نصب کیا گیا اور پھر اسے ریموٹ کنٹرول کے ذریعے اسے اڑا دیا گیا۔ چند ماہ پہلے حزب اللہ نے تائیوان کی ایک کمپنی گولڈ اپالو کو پیجرز اور واکی ٹاکیز کا آرڈر دیا تھا۔ حزب اللہ کے ممبرز ایک طویل عرصے سے یہ الیکٹرانک آلات اس لئے استعمال کر رہے ہیں کہ انہیں دشمن نہیں سن سکتا۔ گولڈ اپالو  کے ترجمان نے کہا ہے کہ یہ آلات تائیوان میں نہیں بنے کیونکہ انہوں نے ہنگری کی ایک کمپنی کو یہ کنٹریکٹ دیا تھا۔ جب مغربی صحافیوں نے ہنگری سے رابطہ کیا تو انہیں بتایا گیا کہ دھماکہ خیز مواد کو بحری جہاز میں کسی نے ان آلات میں نصب کیا ہو گا۔ ان ٹیکنیکل سوالات کے جوابات حاصل کرنا تو آسان ہے مگر مشکل سوال یہ ہے کہ اسرائیل نے طاقت کے اس بھرپور مظاہرے کے بعد کیا حاصل کیا ہے۔ گیارہ ماہ کی ہولناک جنگ کے بعد بھی اگر غزہ میں حماس ابھی تک اسرائیلی فوج پر جوابی حملے کر رہی ہے تو حز ب اللہ کو کیسے ختم کیا جائے گا اور یہ جنگ کتنی دیر تک جاری رہے گی۔ حماس کے جنگجو چاروں اطراف سے اسرائیلی فوج کے نرغے میں ہونے کے باوجود اگر ابھی تک دشمن کا مقابلہ کر رہے ہیں تو لبنان کی شمالی سرحد شام سے ملتی ہے جہاں سے حزب اللہ کے رابطے ایران سے قائم ہیں۔ اسرائیل کی سکیورٹی سروسز نے حز ب اللہ کے کمیونی کیشن نیٹ ورک کو پیجرز اور واکی ٹاکیز کو اڑا کے خا صا نقصان پہنچایا ہے مگر کیا اس طرح سے حز ب اللہ کو شکست فاش دی جا سکتی ہے۔ ماہرین کی رائے میں اس نو عیت کے دھماکے ایک ماہرانہ جنگی چال تو ہو سکتے ہیں مگر تزویراتی اعتبار سے ان کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس نوعیت کے حملوں سے اسرائیل اپنی عسکری اور ٹیکنو لاجیکل برتری کی دھاک تو بٹھا دیتا ہے مگر دوسری طرف وہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر کے پوری دنیا کو اشتعال دلا رہا ہے۔ امریکہ اور یورپی ممالک اسے اسلحہ تو دے رہے ہیں مگر وہ مسلسل اصرار بھی کر رہے ہیں کہ غزہ میں فوری طور پر جنگ بند کر دی جائے۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا کہ اسرائیل کے مغربی اتحادی اس سے بیزار آ چکے ہوں۔ اسرائیل کو اس بات کی بھی پرواہ نہیں کہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے بھی اس پر غزہ میں نسل کشی کا الزام عائد کیا ہوا ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک کی نگاہ میں ایک قابل نفرت ملک بن جانے کے باوجود اسرائیل کیوں جنگ ختم نہیں کرتا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وزیر اعظم بنجا من نتن یاہو یہ اعلان کر چکے ہیں کہ یہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی کہ جب تک حماس کا مکمل خاتمہ نہیں ہو جاتا۔ دوسری  بات یہ کہ جنگ اگر ختم ہو گئی تو پھر نتن یاہو حکومت کا بر سر اقتدار رہنا مشکل ہو جائے گا۔ جنگ کے خاتمے کے بعد سب سے پہلے اس بات کی تحقیقات ہو گی کہ گذشتہ سال سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس نے اتنا بڑا حملہ کیسے کیا۔ یہ اتنا بڑا فساد ہو گا کہ اس کے دوران موجودہ انتہا پسند حکومتی اتحاد کا متحد رہنا ممکن نہ ہو گا۔ اسرائیلی عوام ایک سو سے زیادہ یرغمالیوں کے رہا نہ ہونے کی وجہ سے آئے روز مظاہرے کر کے نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ایسے میں نتن یاہو حکومت نے اگر لبنان میں دھماکے کر کے جنگ کی شدت میں اضافہ کر دیا ہے تو اس کا یہی مطلب ہے کہ اس کی بقاء اسی میں ہے کہ جنگ جاری رہے تا کہ اس کی حکومت برقرار رہے۔