مجوزہ آئینی ترمیمی بل کے مسودے پر اتفاق رائے تک پہنچنے کے حکومتی دعوے کے برعکس پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اپوزیشن نے اپنے ارکان اسمبلی کو ہراساں کیے جانے پر احتجاج جاری رکھا، اپوزیشن نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ موجودہ حالات میں اس بل کے حق میں کبھی ووٹ نہیں دیں گے۔
گزشتہ روز قومی اسمبلی کا اہم اجلاس اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت ہوا جس میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ارکان اسمبلی نے سخت تقریریں کیں اور آئینی ترمیم کے معاملے پر ’زبردستی‘ ووٹ نہ دینے کا اعلان کیا۔
قومی اسمبلی میں یہ اعلان جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی وزیراعظم شہباز شریف اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) رہنماؤں سے ملاقاتوں کے ایک روز بعد کیا گیا۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے جے یو آئی ف کے رہنما مولانا عبدالغفور حیدری نے خبردار کیا ’اگر حکومت نے آئینی ترامیم کے ووٹ کے لیے ’غیر جمہوری‘ رویہ جاری رکھا تو وہ عوام کو سڑکوں پر لے آئیں گے‘۔
عبدالغفور حیدری نے کہا کہ ایک طرف تو مفاہمت کی باتیں ہو رہی ہیں اور دوسری طرف اپوزیشن ارکان کو اغوا کیا جا رہا ہے۔
’اگر آپ ہم سے مجبوری میں ووٹ دینے کو کہیں گے تو ہم کبھی ووٹ نہیں دیں گے، جو بھی ہو جائے‘۔
پی ٹی آئی کے رہنما علی محمد خان اور عامر ڈوگر نے بھی اپنی پارٹی کے ساتھیوں اور ان کے اہل خانہ کو مبینہ طور پر ہراساں کیے جانے کی مذمت کی۔
انہوں نے الگ آئینی عدالت کے قیام کی مخالفت کی اور ان ترامیم کو ’سپریم کورٹ پر حملہ‘ قرار دیا۔
علی محمد خان نے سوال کیا کہ دو چیف جسٹس کیسے ہوسکتے ہیں اور ججوں کی تقرری کے اعلیٰ جج کو ان کے اختیارات سے محروم کرنے کے حکومتی اقدام پر تنقید کی۔
پی ٹی آئی رہنما نے وزیر قانون سے یہ بھی پوچھا کہ انہیں ترامیم کا مسودہ کہاں سے ملا؟
انہوں نے واضح کیا ’یا ہم سے بات کرو یا پھر لڑائی کرو، دن کی روشنی میں آپ ہم سے بات کرتے ہیں اور رات کی تاریکی میں ہمارے خاندان کے افراد کو اٹھایا جارہا ہے‘۔
عامر ڈوگر نے کہا کہ اگر حکومت کا دعویٰ ہے کہ مجوزہ ترامیم موجودہ چیف جسٹس کو فائدہ پہنچانے کے لیے ’شخصی طور پر‘ نہیں ہیں، تو اسے فوری طور پر جسٹس منصور علی شاہ کا بطور چیف جسٹس تقرری کا نوٹیفکیشن جاری کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کو حتمی مسودہ مل گیا ہے اور وہ اپنے بانی چیئرمین عمران خان سے مشاورت کے بعد ہی فیصلہ کرے گی۔
کابینہ اجلاس
حکومت نے خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی منظوری کے بعد بل پر اتفاق رائے کی توقع کرتے ہوئے شام تک دونوں ایوانوں کے اجلاس کو موخر کر دیا تھا۔
ایک موقع پر چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی نے اجلاس ایک گھنٹے کے لیے ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد ایوان کا دوبارہ اجلاس ہوگا۔
کچھ نیوز چینلوں نے دعویٰ کیا کہ وزیر اعظم کی زیر صدارت کابینہ اجلاس ہورہا ہے لیکن بعد میں حکومت نے ان خبروں کی تردید کی۔
بعد ازاں، اعلان کیا گیا کہ مسودہ بل کی منظوری کے لیے ہفتہ کی صبح کابینہ کا خصوصی اجلاس ہوگا۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس آج دوبارہ ہوں گے۔