چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہا کہ آئین سازی کے وقت حکومت اپنی باتوں سے پیچھے ہٹ گئی، جوڈیشل کمیشن سے احتجاجاً علیحدہ ہوئے۔
کراچی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پی پی پی چیئرمین نے کہا کہ انٹرنیٹ اور وی پی این بندش پر ہم سے مشاورت نہیں کی گئی، فیصلے کرنے والوں کو وی پی این کا پتہ ہی نہیں، انٹرنیٹ وی پی این معاملے پر حکومت مشاورت کرتی تو سمجھاتے۔
انہوں نے کہا کہ ایک وقت تھا کہ سڑک پل اور عمارتیں بنائی جاتی تھیں، اب زمانہ وی پی این اور انٹرنیٹ اسپیڈ کا ہے، یہ کہتے ہیں کہ حکومت فور جی سروس دےرہی ہے، فور جی انٹرنیٹ کے حوالے سے جھوٹ بولا جاتا ہے، تھری جی انٹرنیٹ سروس دی جا رہی ہے، اب انٹرنیٹ اسپیڈ مزید سست کردی گئی ہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ زراعت اور ٹیکنالوجی ہی جو معیشت کو سہارا دے سکتے ہیں، بدقسمتی سےحکومت زراعت ٹیکنالوجی کے شعبےکو نقصان دے رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عادت بن چکی ہے کہ دہشتگردی کے واقعے پر بیانات، تعزیتی دورے ہوجاتے ہیں، عوام کا مطالبہ ہے کہ حکومت باتیں نہیں عمل کرکے دکھائے، حکومت دہشتگردی کے مقابلے کےلیے کیا کر رہی ہے۔
یہ بھی کہا کہ ہم پاکستان کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہیں، امریکا کی اپنی سیاست ہے، ہم امریکی سیاست میں ری پبلیکن، ڈیمو کریٹس کی طرفداری نہیں کرتے، ذاتی تعلقات سیاست میں ہوتے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد اور بیٹی کو جانتا ہوں، بی بی شہید کو بھی ٹرمپ نے کھانے پر مدعو کیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ آصف زرداری ٹرمپ کو صدر بننے سے پہلے سے جانتے ہیں، ذاتی تعلقات کی ڈپلومیسی میں اہمیت محدود ہوتی ہے، جیو پولیٹکس کا اثر زیادہ ہوتا ہے، پاکستان امریکا کےتعلقات بلکل اچھے نہیں، جب وزیر خارجہ تھا اس وقت بھی امریکا سے تعلقات زیادہ بہترنہیں تھے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ کے ساتھ بار بار تفریق اور الگ سلوک نظر آتا ہے، جوڈیشل کمیشن میں ہوتا تو آئینی بینچ میں فرق پر بات کرتا، قانون سازی پر پوری طرح سے مشاورت ہونی چاہیے، یہ عجب ہے کہ پہلے فلور پر بل پھر مجھےکاپی دی جائے، سیاست عزت کےلیے ہوتی ہے، سیاست میں ناراضی نہیں ہوتی، حکومت کے ساتھ ناراضی کا سوال ہی نہیں، وفاق میں نہ عزت دی جاتی ہے نہ سیاست کی جاتی ہے، دنیا میں حکومت اتحادیوں کے ساتھ معاہدوں پر عمل کرتی ہے۔
بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ ہم دیکھیں گے کہ معاہدے پر عمل درآمد کیا ہوا ہے، مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی کےساتھ معاہدے کی خلاف ورزی کر رہی ہے، طے ہوا تھا کہ پی ایس ڈی پی مشاورت سے بنائی جائے گی، میں 26ویں ترمیم میں مصروف تھا، حکومت نے پیٹھ پیچھے کینالز کی منظوری دی، میں سمجھتا ہوں اتفاق رائے کے مختلف طریقے ہوسکتےہیں، حکومت کینالز پر جو طریقہ اپنا رہی ہے وہ ٹھیک نہیں، ذمہ داری ہے کہ سی ای سی کو زمینی حقائق سے آگاہ کروں۔