ٹرمپ نے 80 سالہ ملکی پالیسی ایک ماہ میں بدل دی، امریکی میڈیا

ٹرمپ کی دورِ صدارت کے ایک ماہ پر وال اسٹریٹ جرنل، اکانومسٹ، واشنگٹن پوسٹ، نیویارک ٹائمز نے اپنے تجزیے میں لکھا کسی نے نہیں سوچا تھا کہ ٹرمپ 1945 کے بعد کی امریکی پالیسی کو اتنی تیزی سے بدل دیں گے۔

انہوں نے 80سالہ امریکی پالیسی کو ایک ماہ میں بدل دیا۔ نئی پالیسی میں سرحدوں کی توسیع، بیرونِ ملک زمینیں لینے کی پالیسی شامل، تاہم ٹرمپ نے قانون کی خلاف ورزی نہیں کی آئین کے تحت صدر کانگریس کے احکامات پر عمل کے پابند، ٹرمپ اس سے ہٹ رہے ہیں۔ 

وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صرف چار ہفتوں میں امریکی خارجہ پالیسی کو ڈرامائی طور پر تبدیل کر دیا، جس سے امریکا ایک کم قابل اعتماد اتحادی بن گیا اور عالمی ذمہ داریوں سے پیچھے ہٹ گیا۔ 

اس سے امریکا کے دنیا کے ساتھ تعلقات کو بنیادی طور پر نئے سرے سے تشکیل دینے کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔ روس کے ساتھ امن مذاکرات میں رعایتیں پیش کیں، جس پر یورپی اتحادی بھی حیران تھے۔

ٹرمپ نے یوکرین کے صدر کو آمر قرار دیا اور یورپیوں کو مذاکرات سے دور رکھا۔ ترقی پذیر ممالک کو امداد دینے والی یو ایس ایڈ ایجنسی ختم کر دی۔غزہ پر قبضے اور فلسطینیوں کو نکالنے کے منصوبے نے دو ریاستی حل کی واشنگٹن کی دہائیوں کی کوششیں ختم کر دی ، ٹیرف بڑھانے کے منصوبوں نے امریکی زیر قیادت عالمگیریت کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ 

دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکی اتحادی نظام نے امریکی طاقت کو بڑھایا، لیکن ٹرمپ کا خیال ہے کہ اتحادی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ دوسرے ممالک اپنی فوج پر خرچ کریں اور امریکا کا ساتھ دینے کے لیے معاشی مراعات دیں۔

ہیریٹیج فاؤنڈیشن کی نیشنل سیکیورٹی نائب صدر وکٹوریہ کوٹس کہتی ہیں، ’’ٹرمپ دوسری عالمی جنگ کے بعد کا نظام ترک نہیں کر رہے، بلکہ اب وہ دور ختم ہو چکا ہے اور ہمیں جغرافیائی سیاسی تبدیلی کو تسلیم کرنا ہوگا۔‘‘ 

ٹرمپ نے اپنی دوسری مدت میں نیا عنصر شامل کیا، امریکی سرحدیں بڑھانے اور بیرون ملک زمینیں لینے کا منصوبہ بنایا گیا۔ 

انہوں نے پاناما کینال، گرین لینڈ، اور کینیڈا کو 51ویں ریاست بنانے کی باتیں کیں، جو اب ممکنہ پالیسی بن گئی ہیں۔ 

کونسل آن فارن ریلیشنز کے سابق صدر رچرڈ ہاس کہتے ہیں، ’’ٹرمپ کے دوبارہ منتخب ہونے کے بعد امریکا کی قابل اعتماد ساکھ کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ ٹرمپ نے یوکرین پر حملے کا ذمہ دار روس کی بجائے کیف کو قرار دیا اور صدر زیلنسکی کو ’بغیر انتخابات کا آمر‘ کہا، حالانکہ یوکرین میں مارشل لاء کی وجہ سے انتخابات ملتوی ہیں‘‘۔