اسلام آباد: خوف و تشویش کی نئی لہر

وفاقی دارالحکومت میں خوف اور تشویش کی نئی لہر کے پیچھے لال مسجد اور اسلام آباد پولیس کے درمیان پیدا ہونے والی نئی کشیدگی ہے۔ 2007ء میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے لال مسجد میں آپریشن کیا تھا جسکے ردعمل میں ٹی ٹی پی جیسی تنظیمیں قائم ہوئیں۔ جن وجوہات کی بنیاد پر اٹھارہ سال قبل مولانا عبدالعزیز اور اسلام آباد پولیس کے درمیان تنازع پیدا ہوا تھا وہ وجوہات اٹھارہ سال بعد بھی ختم نہیں ہوئیں۔ 

مولانا عبدالعزیز کی اہلیہ امِ حسان گرفتار ہیں اور لال مسجد کا پولیس نے گھیراؤ کر رکھا ہے، ہم نے اٹھارہ سال قبل بھی افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کرنے کی گزارش کی تھی اور آج بھی افہام و تفہیم پر ہی زور دیں گے لیکن اسلام آباد کے ریڈزون میں واقع لال مسجد ایک دفعہ پھر ہر افطار ڈنر کا موضوع بحث بنی ہوئی ہے، کیا ریاست آج بھی وہیں کھڑی ہے جہاں اٹھارہ سال پہلے کھڑی تھی؟ اٹھارہ سال قبل عدلیہ کو فتح کرنے کی کوشش کی گئی۔ میڈیا پر پابندیاں لگائی گئیں اور آئین کو معطل کر دیا گیا۔ 

کیا اٹھارہ سال بعد آپ کو پاکستان میں کوئی تبدیلی نظر آ رہی ہے؟ اٹھارہ سال قبل جب جنرل پرویز مشرف نے مجھ سمیت کچھ ٹی وی اینکرز پر پابندی لگائی تو مجھے ایک غیر ملکی ٹی وی چینل میں نوکری کی پیشکش ہوئی۔ ان دنوں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو دبئی میں مقیم تھیں۔ ان کو اس پیشکش کا پتہ چلا تو انہوں نے مجھے کہا کہ پاکستان چھوڑ کر نہ جانا وہیں رہ کر جدوجہد کرو کیونکہ میں واپس پاکستان جا رہی ہوں۔ میں نے انہیں پاکستان واپس آنے سے روکا اور بتایا کہ آپ کی زندگی کو یہاں خطرہ ہو گا۔ انہوں نے جواب دیا میں اپنے وطن میں شہید ہونا چاہتی ہوں وہ واپس آئیں اور شہید ہو گئیں۔ 

کیا ان کی قربانی سے پاکستان میں جمہوریت اور آئین کو کوئی تقویت ملی؟ آج کی پیپلز پارٹی کے سینے پر 26ویں ترمیم کا تمغہ سجا دیا گیا ہے لیکن آئین کی عملداری کہیں نظر نہیں آتی۔ رمضان المبارک کے مقدس مہینے کا آغاز دہشت گردی کے واقعات سے ہوا ہے ایک طرف قلات میں قومی شاہراہ پر ایک خاتون نے سکیورٹی فورسز پر خودکش حملہ کیا تو دوسری طرف بنوں میں خود کش حملے کے نتیجے میں بے گناہ خواتین اور بچے شہید ہو گئے۔

 ہمارے ارباب اختیار اِن حملوں کا تعلق افغانستان سے جوڑ کر اپنے آپ کو ہر قسم کی ذمہ داری سے آزاد کر لیتے ہیں۔ مان لیا کہ آج کل پاکستان میں ہونے والے حملوں کے تانے بانے افغانستان سے ملتے ہیں لیکن یہ خودکش بمبار صرف پاکستان میں کیوں داخل ہوتے ہیں؟ یہ ایران میں داخل کیوں نہیں داخل ہو پاتے؟ 

منگل کی شام جب بنوں میں خود کش حملوں کی خبر آئی تو میں ایک دوست کے ہاں افطار ٹیبل پر بیٹھا تھا اتفاق سے ٹیبل پر موجود اکثر شخصیات کا تعلق حکومت سے تھا۔ ان سب کو پرویز خٹک کی فکر کھائے جا رہی تھی جنہوں نے اپنے لئے مشیر داخلہ کا عہدہ مانگا ہے۔ میں نے انہیں بتایا کہ پرویز خٹک کو چھوڑو بنوں میں خود کش حملہ ہو گیا ہے۔ ایک وفاقی وزیر نے خود کش حملے کی خبر کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا کہ آؤ پہلے نماز پڑھ لیں پھر آرام سے کھانا کھائیں گے۔ وفاقی وزیر کی امامت میں نماز ادا کرنے کے بعد میں نے پوچھا کہ آج کابینہ کا اجلاس تھا اس اجلاس میں دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے کسی نئی حکمت عملی پر غور ہوا یا نہیں؟ میرا سوال پھر نظر انداز ہو گیا کیونکہ وزیر صاحب یہ جاننا چاہتے تھے کہ پرویز خٹک مشیر داخلہ بن جائیں گے یا نہیں؟