ہر سال کی طرح آج (8 مارچ کو) دنیا بھر میں یومِ خواتین منایا جا رہا ہے۔
یہ دن خواتین کی خدمات، معاشرے میں ان کے کردار، جدوجہد اور قربایوں کو تسلیم کرنے اور انہیں سراہنے کے لیے منایا جاتا ہے۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ عالمی یومِ خواتین کے لیے آخر 8 مارچ کا دن ہی کیوں مخصوص کیا گیا ہے اور اس دن کو منانے کا سلسلہ کب اور کیوں شروع ہوا؟
یومِ خواتین کا آغاز کب اور کیوں ہوا؟
یہ 1908ء کی بات ہے جب امریکی ریاست نیویارک کی محنت کش 15 ہزار خواتین نے اپنے حق کے لیے آواز بلند کی، انہوں نے کام کے لیے ساز گار ماحول اور کم اوقات، برابر اجرت کے حق اور حقِ خود ارادیت کی خاطر تحریک شروع کی۔
بعدازاں 1910ء میں سوشلسٹ انٹرنیشنل کانفرنس کے دوران خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے پہلی بار تجویز پیش کی گئی جو 1977ء میں اقوامِ متحدہ نے باضابطہ طور پر قبول کی۔
اس دن سے 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔
خواتین کے عالمی دن کا خیال کسے آیا؟
خواتین کی خدمات اور قربانیوں کو سراہانے کی خاطر سب سے پہلے کلارا زیٹکن نامی خاتون کے ذہن میں اس دن کو منانے کا خیال آیا، کلارا زیٹکن ایک کمیونسٹ اور خواتین کے حقوق کی کارکن تھیں۔
انہوں نے 1910ء میں کوپن ہیگن میں ہونے والی انٹرنیشنل کانفرنس آف ورکنگ ویمن میں اس خیال کو پیش کیا، جسے وہاں موجود 17 ممالک کی 100 خواتین نے متفقہ طور پر قبول کر لیا۔
انیس سو گیارہ ء میں پہلی بار آسٹریا، ڈنمارک، جرمنی اور سوئٹزر لینڈ میں اس دن کو منایا گیا، یعنی تکنیکی طور پر اس سال ہم خواتین کا 114 واں عالمی دن منا رہے ہیں۔
رواں برس عالمی یومِ خواتین کا موضوع کیا ہے؟
انیس سو ستتر میں اقوامِ متحدہ کی جانب سے اس دن کو باضابطہ طور پر قبول کرنے سے 2 برس قبل یعنی 1975ء میں اس دن کو عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا اور 1996ء سے ہر سال اس دن کے لیے خاص موضوع چنا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ نے پہلی تھیم ’ماضی کا جشن اور مستقبل کی منصوبہ بندی‘ رکھی جبکہ رواں سال کی تھیم ’ اقدامات میں تیزی‘ لانا ہے۔
عالمی یومِ خواتین 2025ء کو صنفی مساوات کے لیے اقدامات میں تیزی لانے کے طور پر منایا جا رہا ہے۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ عالمی بینک کے مطابق صنفی مساوات کی عالمی فہرست میں 146 ممالک میں پاکستان کا 145 واں نمبر ہے۔
عالمی بینک کے مطابق پاکستان میں خواتین کی آبادی تقریباً نصف ہونے کے باوجود، صنفی اور معاشی تفریق کا زیادہ شکار ہیں۔ انہیں مردوں کے مقابلے میں 18 فیصد کم اجرت ملتی ہے۔
پاکستان میں نامناسب حالات کے باوجود خواتین اکثر شعبوں میں آگے بڑھ کر معاشرے میں بھرپور کردار ادا کر رہی ہیں، خاص طور سے زرعی شعبے سے 68 فیصد پاکستانی خواتین وابستہ ہیں، مگر 76 فیصد بغیر اجرت کے اپنے خاندان کی مدد میں مصروف ہیں۔
لیبر فورس میں بھی پاکستانی خواتین کی شرکت کم ہے، صرف 23 فیصد ورک فورس کا حصہ ہیں، 4 کروڑ سے زائد خواتین لیبر فورس سے باہر ہیں۔
پیشہ ورانہ نوکریوں میں بھی عورتوں کا حصہ مردوں سے کم ہے، منیجر لیول پر 2.33 فیصد مرد، 0.14 فیصد خواتین موجود ہیں۔
ورلڈ اکنامک فورم کے اعداد و شمار کے مطابق، موجودہ رفتار سے ترقی جاری رہی تو مکمل صنفی مساوات حاصل کرنے میں 2158ء تک کا وقت لگے گا۔
رواں برس کی تھیم، اقدامات میں تیزی لانے سے مراد یہ ہے کہ ایسے فیصلہ کن اقدامات کیے جائیں جن سے صنفی مساوات کا فوری حصول ممکن ہو سکے۔