ابوظہبی کی جگمگاتی سڑکوں پر، جہاں سورج کی کرنیں ریت پردنیا سے روزگار کی تلاش میں آنے والوں کے عزائم کے نقش چھوڑتی ہیں اور آسمان چھوتی عمارتیں اماراتی قوم کے خوابوں کی گواہی دیتی ہیں، وہاں ایک نیا انقلاب اسٹارگیٹ یو اے ای جنم لے رہا ہے۔ یہ یو اے ای کی تاریخ کا ایک عظیم الشان منصوبہ جو مصنوعی ذہانت (اے آئی)کی عالمی دوڑ میں متحدہ عرب امارات کو لیڈر بنانے کا عزم ہے۔ یہ کوئی معمولی منصوبہ نہیں، بلکہ 500 ارب ڈالر کا ایک انقلاب ہے، جس میں اوپن اے آئی، اوریکل، این ویڈیا، سسکو، سافٹ بینک، اور یو اے ای کی جی 42 نامی کمپنیاں مل کر ابوظہبی میں 10 مربع میل پر پھیلا ایک اے آئی کا ایک ایسا سنٹر تعمیر کر رہی ہیں جس کا اثر پوری دنیا پر پڑے گا۔ 2026 ء تک اس کا پہلا 200 میگاواٹ کا کلسٹرکام شروع کر دے گا جو بعد میں مکمل ہو کر 5 گیگاواٹ کی طاقت سے دنیا کی نصف آبادی یعنی مشرق وسطیٰ، جنوبی ایشیا اور افریقہ کی کئی ارب آبادی کو چیٹ جی پی ٹی جیسے اے آئی کے ان گنت ٹولز فراہم کرے گا۔ یو اے ای کے لئے یہ ایک ایسا خواب ہے، جو تیل سے ہٹ کر اے آئی اور آئی ٹی اکانومی کی طرف کا سفر ہے تاہم پاکستان کے لئے یہ ایک خطرے کی گھنٹی ہو سکتی ہے‘ایک ایسا خطرہ جو خلیج میں ہمارے لاکھوں تارکین وطن کے روزگارکو ختم کرسکتا ہے‘ میں نے دبئی اور ابوظہبی میں گذارے چند سال میں وہاں کی سڑکوں پربہت چہل قدمی کی، جہاں کی ہوا میں ترقی کی خواہشات سانسیں لیتی ہیں یہ وہی امارات ہے جو کبھی صحرا کے ٹیلوں سے زیادہ کچھ نہ تھے، لیکن آج وہ دنیا کے عظیم شہروں سے مقابلہ کرتے ہیں۔ یو اے ای بلند وبالا عمارتوں اور عالی شان پراجیکٹس کے لئے دنیا میں پہچانا جاتا ہے لیکن اسٹارگیٹ یو اے ای ان سب پراجیکٹس میں اب تک کا سب سے بڑا اور پورے خطہ کو تبدیل کر دینے کو شش ہے۔ یہ ایک ایسا پراجیکٹ ہے جو تیل کو پیچھے چھوڑ کر اے آئی کی دنیا میں یو اے ای کو سرفہرست لانے کی کوشش ہے۔ ویژن 2031ء کے تحت اماراتی حکمران ایک ایسی دنیا کا خواب دیکھ رہے ہیں جہاں ہسپتالوں میں مشینیں ڈاکٹروں سے اچھی اور درست تشخیص کریں گی، اسکولوں میں الگورتھم ہر بچے کے لئے الگ مضمون تیار کریں گے اور سرکاری دفتروں میں کاغذی کاروائی کی جگہ ڈیٹا بیس ٹیکنالوجی اور اے آئی لے گی لیکن اس خواب کا ایک تاریک رخ بھی ہے: وہ لاکھوں غیر ملکی مزدور جو پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک سے آکر ان شہروں کو بناتے ہیں، ان کے نظام چلاتے ہیں۔ تاہم اب اماراتی حکمران چاہتے ہیں کہ اے آئی ان کی معیشت کو جدید کمپیوٹرز اور روبوٹس کے ہاتھوں میں وہ کام سونپ دیں جو کبھی ہمارے مزدوروں کے ہاتھوں میں تھے تاکہ وہ ان کی معیشت امیگریشن سے ہٹ کر جدید ٹیکنالوجی کی طرف لے جائیں۔یہ سب کیسے ممکن ہوا؟ یہ کہانی سفارت کاری، حکمت عملی، اور عالمی سیاست کی ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک یو اے ای کی جی 42 نامی کمپنی امریکیوں کے لئے مشکوک تھی۔ 2023ء میں واشنگٹن میں ہلچل مچ گئی جب سی آئی اے نے بتایا کہ جی 42 کا اس وقت کا سی ای او چینی نژاد تھا اور اس کے بیجنگ کے خفیہ اداروں سے رابطے تھے۔ امریکہ، جو چین کے ساتھ ٹیکنالوجی کی جنگ لڑ رہا ہے‘ کو ڈر تھا کہ اس کی اے آئی ٹیکنالوجی چین کے ہاتھ لگ جائے گی۔ لیکن یو اے ای نے فوراً اس بارے میں اقدامات لئے اور جی 42 نے اپنے چینی روابط ختم کر کے، کمپنی کے سرمائے سے چینی حصص نکال دیئے اور نیا سی ای او مقرر کیا۔ جب جنوری 2025ء میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حلف لیا تو ان کا فوکس اے آئی تھا۔ وائٹ ہاؤس میں ان کے ساتھ اوپن اے آئی کے سیم آلٹمین، این ویڈیا کے جنسن ہوانگ اور دیگر ٹیک سربراہ تھے۔ معاہدہ طے ہوا: اسٹارگیٹ یو اے ای بنے گا، جس کی پشت پر یو اے ای کا امریکہ میں 1.4ٹریلین ڈالر کا سرمایہ تھا۔ ٹرمپ نے اسے امریکی سرمایہ داری کی فتح قرار دیا، لیکن حقیقت یہ تھی کہ یو اے ای نے اے آئی کی دنیا میں اپنی جگہ پکی کر لی، اور امریکہ کو چین کے مقابلے میں ایک مضبوط اتحادی مل گیا تھا۔لیکن پاکستانیوں کے لئے یو اے ای کا یہ چمکتا ہوا مستقبل ایک مشکل چیلنج کی طرح ہے۔ ہمارا ملک خلیج پر انحصار کرتا ہے جیسے کوئی مریض سانس کے لئے آکسیجن پر، ڈیڑھ ملین سے زائد پاکستانی یو اے ای اور سعودی عرب میں کام کرتے ہیں، اور ان کے بھیجے ہوئے 14 ارب ڈالر سالانہ زرمبادلہ ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں‘ یہ پیسہ کراچی کے بازاروں سے لے کر پشاور کے گھروں تک، ہمارے خاندانوں کی امیدوں کو زندہ رکھتا ہے۔ لیکن اسٹارگیٹ یو اے ای اس امید کو چیلنج کر رہا ہے۔ کیشئر، ڈیٹا انٹری کلرک، ٹرک ڈرائیور، ڈلیوری بوائز‘یہ وہ نوکریاں ہیں جو پاکستانی کرتے ہیں، اور یہ سب اب اے آئی کے ہاتھوں ختم ہونے والی ہیں۔ سافٹ ویئر انجینئر، جو کبھی اپنے کوڈ کی بدولت عزت پاتے تھے، اب اس ٹیکنالوگی سے مقابلہ نہیں کر سکتے جو تیز اور درست کوڈ لکھتی ہیں۔ یہاں تک کہ ڈاکٹرزخاص طور پر ریڈیالوجی اور پیتھالوجی جیسے شعبوں میں مشینوں سے بدل سکتے ہیں جو مریضوں کے ڈیٹا کا تجزیہ انسانوں سے بہتر کرتی ہیں۔ اماراتی حکمران، جو اپنی آبادی سے کئی گنا زیادہ غیر ملکی مزدوروں پر انحصار کرتے ہیں، اب اے آئی کو اپنی معیشت کو ”اپنے“شہریوں کے لئے واپس لینے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ دبئی کی سڑکوں پر نظر آنے والے پاکستانی چہرے شاید جلد ماضی کا حصہ بن جائیں۔یہ خطرہ صرف یو اے ای تک محدود نہیں۔ سعودی عرب اور قطر نے بھی امریکی کمپنیوں کے ساتھ اپنے اے آئی معاہدے کیے ہیں اور وہ بھی غیر ملکی مزدوروں پر انحصار کم کرنا چاہتے ہیں‘ ماہرین کا کہنا ہے کہ 2030 ء تک خلیج سے پاکستانی ترسیلات زر میں 20 سے 30 فیصد کمی آ سکتی ہے، جو ہماری معیشت کے لئے ایک بڑا دھچکا ہوگا۔ ہمارے نوجوان، جو انجینئرنگ اور میڈیسن کی تعلیم خلیج کی تنخواہوں کے خواب دیکھ کر حاصل کرتے ہیں، اب اپنے مستقبل کو خطرے میں پائیں گے۔لیکن کیا پاکستان بے بس ہے؟ ہرگز نہیں! ہمیں ابھی سے اس کی تیاری کرنی ہو گی۔ سب سے پہلے ہمیں اپنی تعلیم کو اے آئی کے دور کے لئے تیار کرنا ہوگا۔ ہمارے نوجوانوں کو ایسی مہارتیں سکھائی جائیں جو مشینوں سے مقابلہ نہ کریں، بلکہ ان کے ساتھ مل کر کام کریں۔ جیسے اے آئی ایتھکس، مشین لرننگ کی نگرانی، یا ڈیٹا سکیورٹی۔ پاکستان کی یونیورسٹیوں کو عالمی ٹیک کمپنیوں کے ساتھ شراکت داری کرنی چاہیے تاکہ پاکستانی ورکرز مستقبل میں پیچھے نہ رہ جائیں۔ اس کے ساتھ ہمیں اپنے مزدوروں کے لئے نئی مارکیٹس تلاش کرنی ہوں گی۔ جنوب مشرقی ایشیا یا جنوبی امریکہ کے ممالک جہاں اے آئی کا اثر ابھی کم ہے۔ ان سب کے علاوہ پاکستان کو اپنی اے آئی انڈسٹری بنانی ہوگی۔ ٹیک اسٹارٹ اپس کے لئے ٹیکس چھوٹ اور سرکاری و نجی شراکت داری سے ہم اپنے ملک میں نوکریاں پیدا کر سکتے ہیں‘ آخر میں ہمیں یو اے ای کے ساتھ سفارتی بات چیت کرنی ہوگی تاکہ ہمارے مزدوروں کے لئے وہ شعبے محفوظ رکھے جائیں جو ابھی اے آئی سے متاثر نہیں ہوں گے، جیسے کہ تعمیراتی مینجمنٹ یا خصوصی صحت کی دیکھ بھال جہاں انسانوں کو ختم کرنا ممکن نہیں۔دوبئی اور ابوظہبی میں کرینیں اب بھی کام کررہی ہیں اوران کا صحرا ترقی کی خواہش کے آگے جھک رہا ہے۔ اسٹارگیٹ یو اے ای صرف ایک ڈیٹا سینٹر نہیں، بلکہ ایک نئے دور کی شروعات ہے۔ یو اے ای کے لئے یہ خود انحصاری اور عالمی اثر و رسوخ کا موقع ہے۔ لیکن پاکستان کے لئے یہ ایک امتحان ہے۔ ہم یا تو بدلیں گے، یا پھر پیچھے رہ جائیں گے۔ جب میں امارات سے واپس آیا تھا تو اذان کی آواز صحرا میں گونج رہی تھی ایک ایسی آواز جو ہمیں یاد دلاتی ہے کہ کچھ چیزیں ہمیشہ رہتی ہیں۔ پاکستان کو بھی اپنی مستقل جگہ بنانی ہوگی، نہ کہ خلیج میں بھیجے جانے والے مزدوروں سے، بلکہ اپنے ملک میں پیدا کی جانے والی ذہانت سے جو ہماری اصل کامیابی ہو گی۔