بلاگ: مصنوعی ذہانت کا مستقبل اُور پاکستان

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرقِ وسطیٰ کا دورہ حال ہی میں مکمل کیا۔ ان کے ساتھ بڑی امریکی ٹیک کمپنیوں کے سربراہ بھی موجود تھے۔ ان میں ایلون مسک، اوپن اے آئی کے سیم آلٹمین، نیوڈیا، پیلنٹیئر اور دیگر کمپنیاں شامل تھیں۔ ان سی ای اوز نے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں۔ نتیجے میں اربوں ڈالر کے ٹیکنالوجی معاہدے طے پائے۔

یہ صرف کاروبار نہیں تھا۔ امریکہ اور چین کے درمیان جاری مصنوعی ذہانت کی دوڑ میں یہ ایک بڑی امریکی پیش رفت تھی۔ خاص طور پر ابوظبی میں ہونے والا معاہدہ اہم تھا۔ اوپن اے آئی اور اماراتی حکام نے دنیا کے بڑے ترین AI مراکز میں سے ایک بنانے پر اتفاق کیا۔ اس منصوبے پر 500 ارب ڈالر خرچ ہوں گے۔ اس مرکز کو بجلی کی اتنی ضرورت ہوگی جتنی پانچ ایٹمی پلانٹس کو ہوتی ہے۔

یہ ترقی اچانک نہیں ہوئی۔ متحدہ عرب امارات نے برسوں سے ٹیکنالوجی پر توجہ دی ہے۔ مقامی کمپنی G42 اس منصوبے میں اوپن اے آئی کی شراکت دار ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک امریکہ کو اس کمپنی پر اعتراضات تھے کیونکہ اس کے چین کے ساتھ روابط تھے۔ لیکن جب G42 نے چینی تعلقات کم کیے، تو امریکہ نے شراکت کی راہ ہموار کی۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ دورے نے اس تبدیلی پر مہر ثبت کر دی۔ ابوظبی، سعودی عرب اور قطر اب خطے میں مصنوعی ذہانت کے بڑے مراکز بننے جا رہے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان ممالک کے حکمران اپنے نظام، معیشت اور روزگار میں مصنوعی ذہانت کا بھرپور استعمال چاہتے ہیں۔

خلیجی ممالک میں غیر ملکی مزدوروں کی بڑی تعداد کام کرتی ہے۔ ان میں پاکستانیوں کی تعداد بھی نمایاں ہے۔ کم ہنر والے ورکرز سے لے کر انجینئر اور سافٹ ویئر ماہرین تک، سب خلیج میں روزگار کے لیے جاتے ہیں۔ لیکن مصنوعی ذہانت کی ترقی سے یہ صورتحال بدل سکتی ہے۔

ماہرین کے مطابق AI مستقبل میں بہت سی نوکریوں کو ختم کر سکتی ہے۔ خاص طور پر کیشیئر، ڈیلیوری ورکرز، ٹرک ڈرائیورز اور ڈیٹا انٹری جیسے پیشے خطرے میں ہیں۔ حتیٰ کہ سافٹ ویئر انجینئرز، ڈاکٹرز اور دیگر ماہرین کی نوکریاں بھی مصنوع ذہانت کی زد میں آ سکتی ہیں۔

اس تبدیلی کا سب سے زیادہ اثر پاکستان جیسے ممالک پر پڑے گا۔ پاکستان ہر سال لاکھوں ورکرز خلیج بھیجتا ہے۔ یہ ورکرز جو زرمبادلہ بھیجتے ہیں، وہ ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ اگر خلیجی ممالک میں انسانی مزدوری کی ضرورت کم ہو جائے تو پاکستان کو شدید معاشی دباؤ کا سامنا ہوگا۔

خلیجی حکمران ایک ایسے مستقبل کا تصور کر رہے ہیں جس میں غیر ملکی مزدوروں کی جگہ مصنوعی ذہانت لے لے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو سوال یہ ہے کہ پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک اپنے کروڑوں ورکرز کے لیے کہاں روزگار تلاش کریں گے؟

وقت ہے کہ پاکستان اس چیلنج کو سنجیدگی سے لے۔ ہمیں اپنی تعلیم، ٹیکنالوجی، اور افرادی قوت کی منصوبہ بندی نئے عالمی رجحانات کے مطابق کرنی ہوگی۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب مشرقِ وسطیٰ میں پاکستانی چہرے کم اور مشینیں زیادہ نظر آئیں گی۔