امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کے روز اعلان کیا ہے کہ امریکا اور چین کے درمیان تجارتی معاہدہ ’طے پا گیا ہے‘۔ یہ اعلان ایسے وقت پر سامنے آیا جب واشنگٹن اور بیجنگ کے مذاکرات کاروں نے لندن میں دو روزہ طویل بات چیت کے بعد ایک فریم ورک پر اتفاق کیا، جس کا مقصد نازک تجارتی جنگ بندی کو دوبارہ فعال بنانا اور چین کی نایاب ارضی معدنیات اور دیگر اہم صنعتی پرزہ جات کی برآمدات پر عائد پابندیاں ختم کرنا ہے۔
صدر ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ”ٹروتھ سوشل“ پر تحریر کیا، ’ہمارا معاہدہ چین کے ساتھ مکمل ہو چکا ہے، صرف صدر شی اور میرے درمیان حتمی منظوری باقی ہے۔ چین کی جانب سے مکمل میگنیٹس (مقناطیس) اور تمام ضروری نایاب ارضی معدنیات فراہم کی جائیں گی۔ اسی طرح ہم چین کو وہ سب کچھ فراہم کریں گے جس پر اتفاق ہوا ہے، جن میں چینی طلبہ کا ہماری جامعات میں تعلیم حاصل کرنا بھی شامل ہے (جو ہمیشہ میرے لیے قابل قبول رہا ہے!) ہم 55 فیصد ٹیرف حاصل کر رہے ہیں، جبکہ چین کو 10 فیصد مل رہا ہے۔‘
وائٹ ہاؤس کے ایک اہلکار کے مطابق 55 فیصد ٹیرف میں 10 فیصد ”ریسی پروکل“ ٹیرف شامل ہے جو ٹرمپ نے تقریباً تمام تجارتی شراکت داروں پر نافذ کیا ہے، 20 فیصد چین، میکسیکو اور کینیڈا پر نافذ اضافی پابندیاں شامل ہیں، اور 25 فیصد وہ پرانے ٹیرف ہیں جو ٹرمپ کی پہلی صدارت کے دوران چین پر عائد کیے گئے تھے۔
ٹرمپ نے مزید کہا، ’صدر شی اور میں امریکا اور چین کے درمیان تجارت کھولنے کے لیے قریبی تعاون کریں گے۔ یہ دونوں ممالک کے لیے ایک بڑی کامیابی ہوگی!‘
معاہدے کے نفاذ سے متعلق دیگر تفصیلات واضح نہیں کی گئیں۔ جبکہ چینی وزارت تجارت نے طھی فی الحال اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
امریکی و چینی حکام نے لندن میں پیر کو ایک ہنگامی ملاقات کا آغاز کیا تھا، جس سے قبل ٹرمپ اور صدر شی جن پنگ کے درمیان ایک ٹیلی فونک رابطہ ہوا تھا۔ اس رابطے نے جنیوا میں پچھلے ماہ طے پانے والے ابتدائی معاہدے کے بعد پیدا ہونے والے جمود کو توڑا۔
اس سے قبل، جنیوا معاہدہ چین کی جانب سے اہم معدنیات کی برآمدات پر جاری پابندیوں کے باعث تعطل کا شکار ہو گیا تھا، جس پر امریکا نے ردعمل میں سیمی کنڈکٹر ڈیزائن سافٹ ویئر اور دیگر مصنوعات کی چین کو برآمد پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
امریکی وزیر تجارت ہاورڈ لٹنک کے مطابق لندن میں طے پانے والے معاہدے کے تحت چین کی نایاب ارضی معدنیات اور میگنیٹس کی برآمدات پر پابندیاں ختم کر دی جائیں گی، جبکہ امریکا کی جانب سے بھی حالیہ برآمدی پابندیوں میں توازن قائم کیا جائے گا۔ تاہم انہوں نے مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔
چینی نائب وزیر تجارت لی چینگ گینگ نے بھی تصدیق کی کہ ایک فریم ورک طے پا گیا ہے جسے اب دونوں ممالک کے صدور کو منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔
ٹرمپ کی یکطرفہ ٹیرف پالیسیوں نے عالمی منڈیوں میں افراتفری پھیلائی، بندرگاہوں پر رکاوٹیں پیدا ہوئیں، اور کمپنیوں کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچا۔ عالمی بینک نے منگل کو 2025 کے لیے اپنی عالمی ترقی کی پیش گوئی 0.4 فیصد کم کر کے 2.3 فیصد کر دی ہے، جس کی وجہ تجارتی پالیسیوں میں غیر یقینی صورت حال اور زیادہ ٹیرف بتائی گئی ہے۔
امریکا اور چین کے درمیان حالیہ معاہدہ جنیوا معاہدے کو ناکام ہونے سے بچا سکتا ہے، تاہم یہ بنیادی اختلافات کو ختم نہیں کرتا جو کہ چین کے ریاستی سرپرستی پر مبنی برآمدی اقتصادی ماڈل اور ٹرمپ کی ٹیرف پالیسیوں سے متعلق ہیں۔
اٹلانٹک کونسل کے جیو اکنامکس سینٹر کے سینیئر ڈائریکٹر جوش لپسکی کے مطابق دونوں ممالک جنیوا میں معاہدے کی شرائط پر مختلف نقطہ نظر رکھتے تھے، اور انہیں مطلوبہ اقدامات پر مزید وضاحت کی ضرورت تھی۔
انہوں نے کہا، ’یہ اب پہلے مرحلے پر واپس آ گئے ہیں، مگر یہ مرحلہ صفر سے بہتر ہے۔‘
یہ واضح نہیں کہ صدر ٹرمپ کے حالیہ بیانات کے بعد اگست 10 تک طے پانے والے جامع معاہدے کی کیا حیثیت ہے، جس کی مدت کے بعد ٹیرف ایک مرتبہ پھر بڑھ کر امریکا کی جانب سے 145 فیصد اور چین کی جانب سے 125 فیصد تک جا سکتے ہیں۔