وزارت پیٹرولیم بنائی گئی تحقیقاتی کمیٹی نے ابتدائی رپورٹ میں پیٹرول بحران کا ذمے دار نجی تیل کمپنیوں کو قرار دے دیا۔ کمیٹی نےابتدائی رپورٹ وزارت پیٹرولیم کو ارسال کردی جس میں بتایا گیا ہے کہ نجی تیل کمپنیاں موجودہ بحران کی ذمےدار ہیں جب کہ بحران میں پی ایس او کے آئل ٹرمینلز 24 گھنٹے کام کرتے رہے۔ رپورٹ کے مطابق بحران سے قبل پی ایس او کا مارکیٹ شیئر 32 سے36 فیصد تھا لیکن بحران میں تیل کی سپلائی کے باعث پی ایس او کا شیئر 54 فیصد ہوگیا۔
رپورٹ کے مطابق جن تین کمپنیز پر مقدمات ہوئے وہ مارکیٹ شیئرزیادہ لے رہی تھیں کیونکہ ان کے مارکیٹ شیئرز بحران میں کم ہوگئے تھے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک نجی کمپنی کے پاس پورٹ قاسم اورکیماڑی آئل فیلڈ میں 54 ہزار میٹرک ٹن تیل تھا جس کا پیٹرول مارکیٹ شیئر 9 سے 14 فیصد کے درمیان تھا مگر پیٹرول سپلائی نہ کرنے پر اس کمپنی کا شیئر 11.2 فیصد تک گر گیاحالانکہ مارکیٹ شیئر بحران سے پہلےاسی کمپنی کا ڈیزل 10.7 فیصد تھا تاہم بحران میں اس نجی کمپنی کا ڈیزل شیئر 8.3 فیصد تک گر گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق دوسری کمپنی کے پاس کیماڑی اور پورٹ قاسم آئل فیلڈز میں 43 ہزار میٹرک ٹن پیٹرول تھا اس کمپنی کا مارکیٹ شیئر بحران سے پہلے 10.3 فیصد تھا لیکن بحران میں 7.6 فیصد ہوگیا تاہم اس کمپنی کا ڈیزل شیئر بحران میں 8.6 فیصد سے 5.7 فیصد رہ گیا ہے۔
تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہےکہ تیسری کمپنی نے 27 مئی کو 3 ہزار میٹرک ٹن پیٹرول درآمد کیا تھا اس کمپنی نے 27 مئی سے 8 جون تک 280 میٹرک ٹن پیٹرول سپلائی کیا جب کہ 6 جون کو دوبارہ 5 ہزار میٹرک ٹن پیٹرول درآمد کیا مگر مارکیٹس میں فوری نہیں بھیجا تاہم بحران میں کمپنی کا مارکیٹ شیئر 2.3 فیصد سے 0.6 فیصد رہ گیاہے۔
رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ یہ تینوں تیل کمپنیاں ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ میں ملوث ہیں، ساتھ ہی ایک اور بڑی تیل کمپنی کا مارکیٹ شیئر بحران میں 10.2 فیصدسے 6.1 فیصد رہ گیا ہےاور اسی طرح دیگر تیل کمپنیوں کے مارکیٹ شیئر میں بھی نمایاں کمی ہوئی۔
رپورٹ کے مطابق 5 نجی تیل کمپنیوں کے ٹینکس میں سیفٹی رولز اینڈ ریگولیشن کی خلاف ورزیاں بھی کی گئی ہیں۔ رپورٹ میں کمیٹی نے مؤقف اختیار کیا کہ کسی بھی حادثے کی صورت میں بہت بڑا نقصان ہوسکتا ہے لہٰذا تمام کمپنیوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور ایکشن لیا جائے۔ کمیٹی نے سفارش کی کہ ان کمپنیوں کو طے کردہ معیار پر پورا نہ اترنے پرشوکاز دیا جائے اور ایک ماہ میں ان کی کارکردگی بہتر نہیں ہوتی تو لائسنس معطل کیا جائے۔
کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بیشتر کمپنیوں نے نجی آئل ٹرمینلز پر کیمیکلز اسٹوریج کے لیے ٹینکس بنائے جسے بعد میں انہیں پیٹرولیم مصنوعات اسٹوریج میں تبدیل کردیا گیا، اس تمام صورتحال میں ایچ ڈی آئی پی،ایکسپلوزو ڈپارٹمنٹ کو سخت ایکشن کے اختیارات دیے جائیں۔
بحران ختم کرنے کے لیے کمیٹی کا کہنا تھا کہ آئل ریفائنریز ملکی اثاثہ ہیں، ضروری ہے کہ وہ جون اور جولائی میں زیادہ کام کریں۔ واضح رہے کہ پاکستان میں یکم جون سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے بعد سے ملک بھر میں پیٹرول کا بحران پیدا ہوگیا ہے اور حکومت اب تک اس مسئلے کو مکمل طور پر حل کرنے میں ناکام ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے تحقیقات کا آغاز کردیا ہے جب کہ وزارت پیٹرولیم کی بنائی گئی تحقیقاتی کمیٹی کے ہمراہ چھاپے بھی مارے جارہے ہیں۔