جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کی سماعت کے دوران حکومتی وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ وزیراعظم کہتے ہیں انہیں عدلیہ کا بڑا احترام ہے اور ہمیں معاملہ ایف بی آر کو بھیجنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 10 رکنی فل کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف ریفرنس سے متعلق درخواستوں پر سماعت کی۔
حکومتی وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے عدالت کے روبرو اپنے دلائل میں کہا کہ انہوں نے عدالت کے ایک سوال پر صدر مملکت اور وزیراعظم سے مشاورت کی ہے، وزیراعظم کہتے ہیں انہیں عدلیہ کا بڑا احترام ہے، ہمیں معاملہ ایف بی آر کو بھیجنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے، درخواست گزار جج اور اہلیہ ایف بی آر کے ساتھ تعاون کریں اور ایف بی آر 2 ماہ میں فیصلہ کر لے۔ وزیر اعظم نے کہا ہے لندن میں میری ایک پراپرٹی بھی نکلے تو ضبط کر لیں، اس کی رقم قومی خزانے میں ڈال دیں،جس پر جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیئے کہ جج نے اپنے جواب میں یہ نہیں کہا لندن میں یہ جائیدادیں وزیراعظم کی ہیں، انہوں نے ویب سائٹ کے حوالے سے بات کی ہے۔
دوران سماعت جسٹس قاضی فائز خود سپریم کورٹ پہنچ گئے ، فروغ نسیم کے دلائل کے دوران عدالتی اجازت ملنے پر جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ حکومت نے عدالتی تجویز سے اتفاق کیا ہے، مجھے اس پر جواب دینا ہے، یہ قاضی فائز عیسٰی کا مقدمہ نہیں ہم سب کا مقدمہ ہے، الزام لگایا گیا ہے کہ ججز مجھے بچانا چاہتے ہیں، میرے اور میرے اہلخانہ کے ساتھ کیا ہوا اس میں نہیں جانا چاہتا، ریفرنس سے پہلے میرے خلاف خبریں چلیں، حکومت کی جانب سے تاخیر سے جواب جمع کرائے گئے۔ جوڈیشل کونسل نے ایک بار بھی بلا کر میرا موقف نہیں سنا۔ اگر جج بننے کا اہل نہیں تو آج ہی گھر بھیج دیا جائے۔ حکومتی وکیل کہتے ہیں کہ منی ٹریل آج بتا دیں یا کل بتا دیں، پہلے انھوں نے تسلیم کیا کہ وہ ان جائیدادوں سے آگاہ ہیں، تسلیم کیا کہ یہ جائیدادیں میری اہلیہ اور بچوں کی ہیں، ان جائیدادوں کو چھپانے کےلئے کوئی چیز استعمال نہیں کی گئی، کہا گیا کونسل کسی شخص کی اہلیہ کو بلا سکتی ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ میری اہلیہ ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں موقف پیش کرنا چاہتی ہیں، وہ کہتی ہیں کہ وہ ایف بی آر کو کچھ نہیں بتائیں گی، عدالت میری اہلیہ کو ویڈیو لنک کے ذریعے موقف پیش کرنے کا موقع دے۔