اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی دارالحکومت میں مندر کی تعمیر کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔ عدالت نے فریقین کے دلائل کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔
سی ڈی اے نے بتایا کہ مندر کا بلڈنگ پلان نہ ہونے کی وجہ سے کام رکوا دیا ہے۔ عدالت نے سی ڈی اے سے استفسار کیا کہ پلاٹ کس جگہ واقع ہے اور کس مقصد کے لیے استعمال ہو گا؟
ڈائریکٹ اربن پلاننگ سی ڈی اے نے بتایا کہ ایچ نائن ٹو میں 2016 میں پلاٹ دینے کے حوالے سے کارروائی شروع ہوئی، مندر،کمیونٹی سنٹر یا شمشاد گاٹ کے لیے یہ جگہ ہندو کمیونٹی کو الاٹ ہوئی، وزارت مذہبی امور، اسپیشل برانچ اور اسلام آباد انتظامیہ کی تجاویز کے بعد پلاٹ الاٹ کیا گیا، اسی پلاٹ کے ساتھ عیسائی،بھائی،قادیانی اور بدھ مت کمیونٹی کے لیے قبرستان کی جگہ الاٹ ہو چکی، 3.89 کنال جگہ 2017 میں الاٹ کرکے 2018 میں جگہ ہندو پنچایت کے حوالے کی۔
جسٹس عامرفاروق نے استفسار کیا کہ مندر کا نقشہ آیا ہے منظوری کے لیے یا نہیں؟۔ سی ڈی اے نے جواب دیا کہ ابھی معلوم نہیں لیکن منظوری کے لئے آیا نہیں ہے۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل راجہ خالد محمود نے جواب دیا کہ حکومت نے ابھی تک مندر کی تعمیر کے لیے کوئی فنڈنگ نہیں کی، درخواست گزار دس کروڑ روپے کا کہہ رہے ہیں لیکن حکومت نے ابھی کوئی فنڈنگ نہیں کی،حکومت نے مندر کے لیے فنڈنگ کے معاملے پر اسلامی نظریاتی سے سفارشات مانگی ہیں، دنیا میں اچھا پیغام نہیں جا رہا، آئین بھی غیر مسلموں کو اس کی اجازت دیتا ہے۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ مندر کی منظوری اور فنڈنگ دو الگ الگ مسئلے ہیں، حکومت نہ فنڈنگ دے سکتی ہے نہ مندر بنانے کی منظوری دے سکتی ہے۔
جسٹس عامرفاروق نے ریمارکس دیے کہ حکومت نے اسلامی نظریاتی کونسل کو معاملہ بھجوا دیا ہے۔
عدالت نے فریقین کے دلائل کے بعد فیصلہ فیصلہ محفوظ کرلیا۔