گوگل نے اینڈرائیڈ آپریٹنگ سسٹم کو دنیا کے سب سے بڑے زلزلے سے الرٹ کرنے والے سسٹم میں تبدیل کردیا ہے اور اس کے پہلے مرحلے کو منگل سے متعارف کرایا جارہا ہے۔
اگر آپ اجازت دیں گے تو اینڈرائیڈ فونز میں موجود ایکسیلرومیٹر زلزلے کو شناخت کرنے کے لیے ڈیزائن ایک الگورتھم کے لیے ڈیٹا پوائنٹ کی شکل اختیار کرلے گا۔
بتدریج یہ نظام خودکار طور پر ایسے افراد کے لیے انتباہی پیغامات بھیجے گا جن کا زلزلے سے متاثر ہونے کا خطرہ ہوگا۔
یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ دنیا بھر میں اینڈرائیڈ اسمارٹ فونز کی تعداد بہت زیادہ ہے اور گوگل کی جانب سے بڑے ڈیٹا کے لیے الگورتھمز کا بہترین استعمال کیا جاتا ہے۔
اس سے پہلے گوگل ایپل کے ساتھ کورونا وائرس کے مریضوں کی تلاش کے نظام کو تشکیل دے چکا ہے جبکہ ایمرجنسی لوکیشن سروسز بھی متعارف کرائی گئیں۔
اب زلزلے سے آگاہ کرنے والے نظام کو بتدریج متعارف کرایا جائے گا، پہلے مرحلے گوگل کی جانب سے یو ایس جیولوجیکل سروے اور کیلیفورنیا آفس آف ایمرجنسی سروسز سے اشتراک کیا گیا ہے، جبکہ کیلیفورنیا میں اینڈرائیڈ صارفین کو زلزلے سے متعلق الرٹس بھیجے جائیں گے۔
گوگل کے اینڈرائیڈ سافٹ ویئر انجنیئر مارک اسٹوگٹس نے بتایا کہ ویسے تو یہ زبردست ہوگا زلزلہ پیما نظام زلزلے کی پیشگوئی کے لیے ہر جگہ موجود ہوں، مگر ایسا ممکن نہیں اور عالمی سطح پر ان کا استعمال لگ بھگ ناممکن ہے کیونکہ زلزلہ پیما آلات بہت زیادہ مہنگے ہوتے ہیں، ان کی مسلسل نگہداشت کرنا پڑتی ہے اور کسی بھی علاقے میں ان کی بہت زیادہ تعداد کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ایک اچھا ارلی ارتھ کوئیک وارننگ سسٹم قائم ہوسکے'۔
اس منصوبے کے دوسرے مرحلے میں گوگل کی جانب سے مقامی سرچ نتائج میں زلزلے سے متعلق اینڈرائیڈ ڈیٹا کے الرٹس کو حصہ بنایا جائے گا۔
اس کے پیچھے یہ خیال ہے کہ جب بھی آپ کو زلزلے کا احساس ہو تو گوگل پر جاکر دیکھ سکیں کہ واقعی زلزلہ آیا تھا یا نہیں۔
آخری مرحلے میں جب گوگل کو نظام کی درستگی پر زیادہ یقین ہوجائے گا تو زلزلے سے متعلق وارننگ لوگوں کو بھیجنے کا سلسلہ شروع ہوگا۔
مارک اسٹوگٹس کا کہنا تھا کہ اس پروگرام کے تحت جمع کی جانے والی تفصیلات کے حوالے سے گوگل کو صرف لوکیشن انفارمیشن کی ضرورت ہوگی۔
زلزلے کے الرٹس اور ڈیٹکشن سسٹم کا حصہ بننا صارف کی اپنی مرضی پر ہوگا۔
مارک اسٹوگٹس کے مطابق ہمیں بس ہر فون کو زلزلہ پیما آلے میں بدلنا ہوگا اور ہمیں لوگوں کے بارے میں جاننے کی ضرورت نہیں ہوگی کیونکہ اس کی ضرورت ہی نہیں ہوگی۔
آسان الفاظ میں ایک اینڈرائیڈ فون ایک چھوٹے زلزلہ پیما آلہ بن جائے گا کیونکہ ان میں ایک ایکسیلرومیٹر موجود ہوتا ہے جس کو اینڈرائیڈ سسٹم یہ دیکھنے کے لیے استعمال کرتا ہے کہ فون کو ہلایا جارہا ہے یا نہیں۔
یہ اس وقت آن ہوتا ہے جب کوئی اینڈرائیڈ فون چارجنگ پر لگایا جاتا ہے اور استعمال نہیں ہوتا۔
مارک اسٹوگٹس نے بتایا کہ ہم نے دیکھا تھا کہ اینڈرائیڈ اتنے حساس ہیں کہ زلزلے کی لہروں کو پکر سکتے ہیں، ویسے تو ہر فرد کو بھی زلزلہ آنے پر اس کا اندازہ ہوجاتا ہے، مگر اس کی تصدیق کے لیے فونز کے ڈیٹا کی ضرورت ہوسکتی ہے۔
اس ڈیٹا کے تجزیے کے لیے ہزاروں فونز کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کے لیے الگورتھمز کو استعمال کرکے تعین کیا جائے گا کہ کیا واقعی زلزلہ آیا ہے یا نہیں۔
گوگل کا کہنا ہے کہ اس کا نظام زلزلے کے مرکز کے بارے میں جاننے کی اہلیت رکھتا ہے اور زلزلے کی شدت کا تعین بھی کرسکتا ہے۔
تاہم زلزلے کی لہروں کی رفتار کو دیکھتے ہوئے لوگوں کی جانب سے ردعمل کے آپشن محدود ہوتے ہیں۔
گوگل کی جانب سے یہ نظام گوگل موبائل سروسز کے ذریعے متعارف کرایا جائے گا، تو مکمل آپریٹنگ سسٹم اپ ڈیٹ کی ضرورت نہیں ہوگی۔
یعنی یہ نظام آج استعمال ہونے والے بیشتر اینڈرائیڈ فونز میں کام کرسکے گا۔
فی الحال ارتھ کوئیک الرٹس کیلیفورنیا کے افراد کے لیے جاری کیے جائیں گے اور وہاں گوگل سرچز میں بہت جلد ارتھ کوئی ڈیٹا بھی نظر آنے لگے گا۔
مستقبل قریب میں اس نظام کو دنیا کے دیگر حصوں میں متعارف کرایا جائے گا۔
مارک اسٹوگٹس کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں کروڑوں افراد زلزلے کا مرکز سمجھے جانے والے علاقوں میں رہتے ہیں اور اسی وجہ سے ہم نے سوچا کہ کچھ ایسا کیا جاسکے جس سے لوگوں کو مدد مل سکے۔