اسلام آباد ہائیکور ٹ نے نواز شریف کو سرنڈر کرنے کا حکم دیدیا 

 

 اسلام آباد۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو عدالت کے سامنے سرینڈر کا حکم دیدیا۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ اگر نواز شریف آئندہ سماعت تک پیش نہیں ہوتے تو انکو مفرور قرار دینے کی کارروائی شروع کرینگے۔ کیس کی سماعت جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل ڈویژن بینچ نے کی۔میاں نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث اور نیب کی طرف سے نیب پراسیکیوٹر جہانزیب بھروانہ نے کیس کی پیروی کی۔ 

خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں عدالت کو بتایا کہ اگر نواز شریف کو عدالت طلب کر رہی ہے تو پھر بھی وہ پنجاب حکومت کا فیصلہ چیلنج کر سکتے ہیں جس پر جسٹس عامر نے کہا کہ انکا حق تو نہیں چھین رہے نا، وہ فیصلہ چیلنج کر سکتے ہیں۔وکیل صفائی نے عدالت کو بتایا کہ نواز شریف اس حالت میں نہیں کہ وہ ابھی پاکستان آ سکیں اسی نوعیت کا معاملہ لاہور ہائی کورٹ میں زیر التواء  ہے جس پر جسٹس عامر فاروق  نے  کہا کہ  ہمارے پاس نواز شریف کی دو اپیلیں زیر سماعت ہیں نواز شریف کو مخصوص وقت کیلئے ضمانت دی گئی پنجاب حکومت نے نواز شریف کی ضمانت میں توسیع کی درخواست مسترد کر دی۔

 جسٹس عامر فاروق نے خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی ضمانت کا سٹیٹس کیا ہے جس پر وکیل صفائی نے بتایا کہ نواز شریف اس وقت ضمانت پر نہیں ہیں نواز شریف کو خود کو عدالت کے سامنے پیش کرنا ہو گا۔ نواز شریف پنجاب حکومت کے فیصلے کو متعلقہ عدالت میں چیلنج بھی کر سکتے ہیں نواز شریف علاج کی غرض سے لندن گئے جب پنجاب حکومت نے نواز شریف کی ضمانت مسترد کی تو نواز شریف لندن میں زیر علاج تھے میڈیکل بورڈ نے رائے دی تھی کہ سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے نواز شریف کو فوری طور پر بیرون ملک جانے کی ضرورت ہے۔

 لاہور ہائیکورٹ نے نواز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی پنجاب حکومت نے بھی میڈیکل بورڈ بنایا جس نے کہا کہ نواز شریف کا علاج پاکستان میں نہیں ہو سکتا حکومت نے 7 کروڑ زر ضمانت کے عوض نواز شریف کو بیرون ملک بھیجنے کی شرط رکھی۔

لاہور ہائیکورٹ میں شہباز شریف نے درخواست دائر کی نواز شریف اور شہباز شریف نے بیان حلفی دی کہ نواز شریف علاج کے بعد وطن واپس آئیں گے۔عدالت نے بیان حلفی پر نواز شریف کو چار ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی جس پر جسٹس عامر فاروق نے  کہا کہ لاہور ہائیکورٹ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ضمانت کے فیصلے کو سپرسیڈ نہیں کر سکتی تھی۔

لاہور ہائیکورٹ نے سزا معطلی کے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کی حدود میں رہتے ہوئے فیصلہ دینا تھا جس پر خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس پنجاب حکومت کے سامنے پیش کی گئیں جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ پنجاب حکومت نے کب نواز شریف کی ضمانت میں توسیع کی درخواست مسترد کی تھی جس پر خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب حکومت نے 27 فروری کو نواز شریف کی ضمانت میں توسیع کی درخواست مسترد کی جس پر جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ پنجاب حکومت اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم کے مطابق عملدرآمد کر رہی ہے جس پر خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ وہ ہائیکورٹ کے حکم کے مطابق کر رہی ہے یا نہیں اس پر الگ سے بات کرینگے لاہور ہائیکورٹ میں کیاکارروائی چل رہی ہے اسکا اسلام آباد ہائیکورٹ سے کوئی تعلق نہیں، اپیلیں اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیرسماعت ہیں فیصلہ اس عدالت نے کرنا ہے۔

 جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کا حکم ای سی ایل کی حد تک ہے جس پر خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ میں عدالت کی بات سے اتفاق کر رہا ہوں کہ نواز شریف عدالتی فیصلے کے مطابق اب ضمانت پر نہیں ہیں کوئی وجہ موجود نہیں تھی کہ نواز شریف واپس نہ آتے۔ 

جسٹس محسن اختر کیانی نے خواجہ حارث سے کہا کہ آپ میاں شہباز شریف کی بیان حلفی کا پیرا 2 پڑھیں کیا نواز شریف نے اپنی حالیہ میڈیکل رپورٹس پنجاب یا وفاقی حکومت کو دیں جس پر خواجہ حارث نے بتایا کہ نواز شریف نے رجسٹرار ہائیکورٹ کو اپنی تمام میڈیکل رپورٹ جمع کرائیں۔ دوسری صورت یہ تھی کہ حکومت کو اگر شک ہو تو وہ ہائی کمیشن کا اپنا نمائندہ بھیج کر معلوم کر سکتی تھی۔ ہائی کمیشن کا کوئی بندہ نواز شریف کی حالت جاننے کے لئے نہیں گیا۔ 

اس موقع پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا وفاقی حکومت کی طرف سے کوئی ہدایات ہیں جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ مجھے اس حوالے سے کوئی ہدایات نہیں دی گئیں۔

 جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ کیا نواز شریف ہسپتال میں زیرعلاج ہیں اگر وہ ہسپتال میں زیرعلاج ہو تو پھر تو صورتحال بالکل مختلف ہے جس پر خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ نواز شریف اس وقت ہسپتال میں زیرعلاج نہیں ہیں اگر نواز شریف ہسپتال میں زیرعلاج نہیں تو اسکا قطعی طور پر مطلب نہیں کہ وہ سفر کیلئے صحت مند ہیں۔

اس موقع پر جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ نواز شریف کی ایون فیلڈ ریفرنس میں ضمانت مخصوص وقت کیلئے نہیں تھی العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی ضمانت کا سٹیٹس اس کیس پر بھی اثرانداز ہو گا جس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ نواز شریف چونکہ لندن میں زیر علاج ہیں جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے  کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں وہ ہو گا لیکن اسکا آپ نے ابھی کوئی دستاویز نہیں دی۔ نواز شریف کا علاج شروع ہوتا، سرجری ہوتی اور آپ آ کر حکومت کو آگاہ کرتے نواز شریف علاج کی تفصیل جمع کراتے تو پنجاب حکومت نمائندہ بھیج کر تحقیقات کر سکتی تھی۔

خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ اگر نواز شریف پاکستان میں ہوتے تو وہ پنجاب حکومت کے فیصلے کو چیلنج کرتے جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ نواز شریف کو یہ کہنا ہو گا کہ وہ پاکستان آئیں گے جس پر خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ نواز شریف جب صحت یاب ہونگے تو وہ پاکستان واپس آ کر پیش ہونگے۔ لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ ساتھ لگایا ہے انہوں نے ایسا کچھ نہیں کہا کہ ابھی بیان حلفی کی خلاف ورزی کی گئی۔ 

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ ہم سمجھنے کے لئے آپ سے سوالات کر رہے ہیں جس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ عدالت نواز شریف کو پیش ہونے کا حکم دے سکتی ہے۔ دوسری صورت میں عدالت نواز شریف کو مفرور قرار دے سکتی ہے جس پر جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ اگر نمائندے کے ذریعے عدالت سماعت کر کے فیصلہ نواز شریف کے خلاف دے دے پھر کیا ہو گا۔نواز شریف تو بیرون ملک ہونگے تو اس فیصلے پر عملدرآمد کیسے ہو گا جس پر خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ اس معاملے کو اس طرح چھوڑا تو نہیں جائے گا کہیں نہ کہیں جا کر اسکو حل تو ہونا ہے جس پر جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ دوسری صورت میں اگر عدالت نواز شریف کو مفرور قرار دے دیتی ہے تو پھر اپیل کا کیا ہو گا۔جس پر خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ نواز شریف اگر مفرور قرار دے بھی دیے جائیں پھر بھی عدالت اپیلوں کو سن کر فیصلہ کریگی اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر جہانزیب بھروانہ نے عدالت کو بتایا کہ نواز شریف جیل میں نہیں ہیں انکے لئے تو نمائندہ بھی مقرر نہیں کیا جا سکتا۔

 اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کو ضمانت دی اور انکو ضمانت کے فیصلے پر مکمل طور پر عملدرآمد کرنا تھا نواز شریف نے پنجاب حکومت کا ضمانت مسترد کرنے کا فیصلہ کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا عدالت نواز شریف کو مفرور قرار دے جس پر جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ عدالت ابھی نواز شریف کو مفرور قرار نہیں دے رہی ہم نواز شریف کو سرینڈر کرنے کا ایک موقع دے رہے ہیں کیس کی سماعت 10 ستمبر تک جبکہ ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز اور صفدر اعوان کیس کی سماعت 23 ستمبر تک ملتوی کر دی گئی۔