دس منزلہ کھیت سے گندم کی پیداوار 600 گنا تک بڑھائی جاسکتی ہے، ماہرین


 امریکی زرعی ماہرین نے حساب لگایا ہے کہ اگر ایک دس منزلہ کھیت میں گندم کاشت کی جائے تو گندم کی پیداوار روایتی زراعت کے مقابلے میں 200 سے 600 گنا تک بڑھائی جاسکتی ہے۔

واضح رہے کہ زراعت میں اس نئے شعبے کو ’’عمودی کاشت کاری‘‘ (ورٹیکل فارمنگ) کہا جاتا ہے جس میں کھلے آسمان کے بجائے کسی عمارت کے اندر، مختلف فصلوں کی منزل در منزل کاشت کرتے ہوئے، کم رقبے پر زیادہ پیداوار حاصل کی جاتی ہے۔


پرنسٹن یونیورسٹی، نیو جرسی میں ماہرِ نباتات پروفیسر ڈاکٹر پال گاؤدیئر اور ان کے ساتھیوں نے گندم کی غذائی اہمیت کے پیشِ نظر حساب لگایا کہ اگر عمودی کاشت کاری کی یہی ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے ایک دس منزلہ کھیت میں گندم اُگائی جائے تو موزوں ترین حالات کے تحت گندم کی پیداوار میں کتنا اضافہ کیا جاسکے گا۔

 

محتاط تخمینہ لگانے پر معلوم ہوا کہ ایسی صورت میں گندم کی فی ہیکٹر پیداوار 700 ٹن سے لے کر 1940 ٹن تک حاصل کی جاسکے گی۔ گندم کی پیداوار کا موجودہ اوسط تقریباً 3۔5 ٹن فی ہیکٹر ہے، جس کے مقابلے میں یہ متوقع شرح واقعی بہت بلند ہے۔

یہ تمام تفصیلات ’’پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز‘‘ کی ویب سائٹ پر چند روز پہلے شائع ہوئی ہیں۔

عمودی کاشت کاری کا عملی آغاز 1999 میں ہوا تھا اور تب سے لے کر اب تک یہ خاصی مقبول ہوچکی ہے۔ عالمی طور پر بھی اس کی مارکیٹ مسلسل وسعت پذیر ہے جو آج دو ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ چکی ہے جو 2026 تک 12 ارب ڈالر ہوجانے کی توقع ہے۔

ان تمام خوبیوں کے باوجود، عمودی کاشت کاری آج بھی بہت مہنگی ہے جس میں صرف ایک ہیکٹر (یعنی 100 میٹر لمبا اور 100 میٹر چوڑا) کھیت تعمیر کرنے پر بہت زیادہ لاگت آتی ہے۔ تاہم یہ طریقہ مقبول ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے اخراجات بھی کم ہونے کی خاصی امید ہے۔

یہ بات دلچسپی سے پڑھی جائے گی کہ پاکستان میں تقریباً 90 لاکھ ہیکٹر رقبے پر گندم کاشت کی جاتی ہے جس سے مجموعی طور پر سالانہ 2 کروڑ 70 لاکھ ٹن گندم کی پیداوار حاصل ہوتی ہے جبکہ پاکستان میں گندم کی سالانہ کھپت 2 کروڑ 55 لاکھ ٹن کے لگ بھگ ہے۔ علاوہ ازیں، پاکستان میں گندم کی شرحِ پیداوار تقریباً 3 ٹن فی ہیکٹر ہے جو عالمی اوسط سے معمولی سی کم ہے۔

اگر عمودی کاشت کی ٹیکنالوجی پاکستان میں رائج ہوجائے تو صرف 30 ہزار ہیکٹر رقبے سے پاکستان میں گندم کی تمام ضرورت پوری کی جاسکے گی جبکہ دوسری غذائی اجناس بھی کم رقبہ استعمال کرتے ہوئے زیادہ مقدار میں اُگائی جاسکیں گی۔