اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کا وکیل مقرر کرنے کیلیے بھارت کو ایک اور موقع دینے کا حکم دیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی سربراہی میں لارجر بینچ نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادھو کے لیے وکیل مقرر کرنے کی حکومتی درخواست پر سماعت کی۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے کلبھوشن جادھو کے لیے قانونی نمائندہ مقرر کیا جائے، چھ اگست کو وزارت خارجہ نے بھارتی وزارت خارجہ سے رابطہ کیا، بھارت کی طرف سے ابھی تک کوئی جواب نہیں آیا۔
خالد جاوید خان نے بتایا کہ بھارتی جاسوس نے بھی اپنا پرانا موقف دہرایا ہے کہ وہ آرڈیننس کے ذریعے کوئی فائدہ نہیں لینا چاہتا، دو صورتیں ہو سکتی ہیں، ایک تو یہ ہے کہ عدالت کلبھوشن کے لیے وکیل مقرر کرے، دوسری صورت یہ ہے کہ بھارتی جواب کا انتظار کیا جائے، پاکستان عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عمل کرنے کے لیے تیار ہے، لیکن بھارت نظرثانی کے معاملے پر رکاوٹ بن رہا ہے، ہم نے بھارت کو تیسری دفعہ قونصلر رسائی کی آفر دی ہے جو اب بھی موجود ہے، اگرچہ اس نے پیشکش کا جواب نہیں دیا۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ بھارت نے پاکستان میں کاغذات دیکھنے یا حصول کے لیے ایک وکیل شاہ نواز نون مقرر کیا، لیکن اس کے پاس بھارت کا کوئی اجازت نامہ یا وکالت نامہ نہیں تھا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ جب کلبھوشن اور بھارت خود اپیل میں آنا ہی نہ چاہیں تو اپیل کی کارروائی موثر کیسے ہو سکتی ہے؟ نظر ثانی کی اپیل تب ہی موثر ہو سکتی ہے جب کلبھوشن خود اپیل کرنا چاہے، اس کی مرضی کے بغیر اپیل کا مطلب اسے دی گئی سزا کے فیصلے کو حتمی شکل دینے کی مشق ہی ہوگی؟ کیا یہ مناسب نہ ہو گا کہ فیئر ٹرائل کے اصولوں کے تحت بھارت کو دوبارہ پیشکش کی جائے؟، ہم بھی سمجھتے ہیں کہ بھارت کو ایک اور آفر دی جائے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھارت کو کلبھوشن یادیو کا وکیل کرنے کے لیے 6 اکتوبر تک مہلت دے دی اور تیسری قونصلر رسائی کی ایک اور پیشکش دینے کا بھی حکم دیا۔ کیس کی مزید سماعت 6 اکتوبر تک ملتوی کردی گئی۔