کراچی: چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ وفاق سندھ کو پیسہ نہ دینےکےبیانات روکے، یہ ان کےباپ کا پیسہ نہیں بلکہ سندھ کے پیسہ سے وفاق چلتا ہے۔
وزیراعلیٰ ہاؤس کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ عوام کی مشکلات سے واقف ہیں، برسات سے متاثرہ علاقوں کی بحالی کے لیے دن رات کام جاری ہے، کچھ جگہوں پر ابھی بھی پانی موجود ہے جس کی نکاسی کیلیے کام جاری ہے جب کہ امید کرتے ہیں وفاقی حکومت سندھ حکومت کے ساتھ مل کر کام کرے گی۔
وزیراعظم پورے صوبے کے لیے ریلیف پیکج کا اعلان کریں؛
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ 100 سال بعد کراچی میں اتنی بارش ہوئی ہے، صرف کراچی کے 3 نالوں کی صفائی سے مسائل حل نہیں ہوں گے وزیراعظم کل پورے صوبے کے لیے ریلیف پیکج کا اعلان کریں۔ انہوں نے کہا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی یہاں آئے اور صدر مسلم لیگ (ن) شہبازشریف بھی، ان کی آمد پر شکرگزارہیں، ہمیں خوشی ہے کہ پورا ملک ہمارے ساتھ ہے۔
کے الیکڑک کے ٹیرف میں اضافہ واپس لینے کا مطالبہ؛
چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کے الیکڑک کے ٹیرف میں اضافہ واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ بجلی مل نہیں رہی لیکن مہنگی کردی گئی، ہم وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ یہ فیصلہ واپس لے۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان اور سوات میں بھی بارشوں نے کافی تباہی مچائی، ہم وہاں کے لوگوں کے لیے دعا کرتے ہیں، مشکل کی اس گھڑی میں تمام لوگوں کے ساتھ ہیں۔
این ایف سی کا شیئر ہمارا آئینی حق ہے؛
چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ کچھ لوگ پیسے نہ دینے کا طعنہ دیتے ہیں، یہ پیسے ان کے باپ کے نہیں جب کہ این ایف سی کا شیئر ہمارا آئینی حق ہے، پیسے نہ دینے کی باتوں سے وفاق کو نقصان پہنچتا ہے، یہ نہیں ہو سکتا بزدار کو پیسہ دیں اور مراد علی شاہ کو نہ دیں۔
امید ہے نوازشریف طبیعت بہتر ہوتے ہی وطن واپس آجائیں گے؛
چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے اے پی سی کی میزبانی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن لیڈر شہبازشریف سے ملاقات مثبت رہی، ہم چارٹر آف ڈیموکریسی کو مزید فعال بنانا چاہتے ہیں جب کہ امید ہے نوازشریف طبیعت بہتر ہوتے ہی وطن واپس آجائیں گے۔
عاصم سلیم باجوہ نے استعفیٰ دیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ دال میں کچھ کالا ہے؛
عاصم سلیم باجوہ سے متعلق سوال پر بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ عاصم سلیم باجوہ نے استعفیٰ دیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ دال میں کچھ کالا ہے، اگر ہمارے اوپر اخبارات کی خبروں کی بنیاد پر جے آئی ٹی بنتی ہیں تو دوسروں کے لیے جے آئی ٹی کب بنے گی اور ان کی گرفتاری کب ہوگی، ملک میں یہ طریقہ کار بن چکا ہے کہ پہلے مجرم قرار دیا جاتا ہے اور پھر معصوم ثابت کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے نواز شریف اور ان کے معاونین کے لیے یہ معیار قائم کیا تھا کہ پہلے الزام لگتا تھا اور پھر جے آئی ٹی بنتی اور ٹرائل ہوتا تھا، اگر ملک میں ایک قانون ہے تو جو سلوک ہمارے ساتھ ہوتا ہے وہ سارے معاونین خصوصی کے ساتھ ہونا چاہیے، آمدن سے زائد اثاثہ جات کے نیب ریفرنس بننے چاہئیں۔