6 ستمبر 1965 کی صبح تک کون جانتا تھا کہ تاریخ میں ایک اور جرات و عظمت کا باب لکھا جانے کو ہے- کسے معلوم تھا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سر زمین پر دشمن ناپاک عظائم کے ساتھ اترنے والے ہیں اور کس نے تصور کیا تھا کہ اس مملکت خداداد کی حفاظت کی خاطر بوڑھے، جوان اور بچے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے ہیں جس کے آگے دشمن کے حوصلے پست ہو جاتے ہیں۔
اور پھر 6 ستمبر 1965 کی صبح ریڈیو پاکستان گونجتا ہے۔۔۔۔۔
یہ ریڈیو پاکستان ہے۔
صدر پاکستان محمد ایوب خان قوم سے خطاب فرمائے گے۔۔۔۔
*"میرے عزیز ہم وطنوں اسلام علیکم !
دس کروڑ پاکستانیوں کے امتحان کا وقت آن پہنچا ہے۔ آج صبح سویرے ہندوستانی فوج نے پاکستان کے علاقے پر لاہور کی جانب سے حملہ کیا۔ اور بھارتی ہوائی بیڑے نے وزیر آباد سٹیشن پر ٹھہری ہوئی ایک مسافر گاڑی کو اپنے بزدلانہ حملے کا نشانہ بنایا۔ بھارتی حکمران شروع سے پاکستان کے وجود سے نفرت کرتے رہے ہیں اور مسلمانوں کی علیحدہ آذاد مملکت کو انہوں نے دل سے کبھی تسلیم نہیں کیا۔ اسلئے وہ اٹھارہ برس سے پاکستان کے خلاف جنگی تیاریاں کر رہیں ہیں۔
پاکستان کے دس کروڑ کی عوام جن کے دل میں "لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ" کی صدا گونج رہی ہیں اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک دشمن کی توپیں ہمیشہ کے لئے خاموش نا ہو جائیں۔
ہندوستانی حکمران شاید ابھی یہ نہیں جانتے کہ انہوں نے کس قوم کو للکارا ہیں۔
ہمارے دلوں میں ایمان اور یقین محکم ہیں اور ہمیں یہ معلوم ہیں کہ ہم سچائی کی جنگ لڑ رہیں ہیں۔
ملک میں آج ہنگامی صورت حال کا اعلان کر دیا گیا ہیں۔ جنگ شروع ہو چکی ہیں ۔ دشمن کو فنا کرنے کے لئے ہمارے بہادر فوجیوں کی پیش قدمی جاری ہیں۔ اللہ تعالی نے پاکستان کی مسلح فوجوں کو اپنے جوہر دیکھانے کا موقع عطا کیا ہے۔ میرے ہم وطنوں آگے بڑھوں اور دشمن کا مقابلہ کرو۔ خدا تمھارا خامی اور ناصر ہو، آمین! پاکستان پائندہ باد۔۔! *
اور اسکے ساتھ ہی وطن عزیز کا بچہ بچہ جذبہ جہاد سے سرشار ہو گیا۔ اور پاکستان کی پوری قوم نعرہ تکبیر لگاتی ہوئی نکل آئی۔
وقت عصر، ڈوبتا سورج، ابھرتی امنگیں، زندہ دلوں کا شہر لاہور
گونجتی ہوائیں، نعرہ تکبیر کی صدائیں اور پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف
کہ انہی نعروں میں پاکستان کا پرچم عزت و احترام کے ساتھ اتارا جاتا ہے کہ یکدم خدا کے دشمن نے خدا کا نام لے کر خدا کے بندوں کو دھماکے سے للکار دیا۔۔۔۔
ان الفاظ کے ساتھ کے کہ ہم صبح کا ناشتہ لاہور میں کریں گے اور گیارہ بجے تک لاہور جم خانہ میں بیٹھ کر شراب پئیں گے اور بعدمعاشی کی محفل سجائے گے۔۔۔۔
6 ستمبر کی رات بہت بھاری تھی۔۔۔۔۔
مگر اندھیرے اجالوں کے آگے کہاں ٹھہر پاتے ہیں....مٹ جاتے ہیں۔۔۔۔
آگے بڑھوں، فنا کردوں کی صداوں میں
میرے جوان بڑھے آتے ہیں۔۔۔۔
سر بکف جان ہتھیلی پر لئے۔۔۔۔
وہ میری شان میری آن چلے آتے ہیں۔۔۔۔
پاک فضایہ کے ایم ایم عالم جیسے بہادر اور جانباز پائلٹ نے سرگودھا کے مقام پر ایک ہی منٹ میں دشمن کے پانچ جنگی طیاروں کو گرا کر ان پر خوف و لرزا طاری کر دیا۔ اور آج بھی عظیم ریکارڈ کے طور پر گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج ہیں۔
دھرتی کے محاذ پر ایمان اور غیرت کی بھٹی میں کندن بنا عزیز بھٹی ٹینکوں کے گولے اپنے سینے پر روکتا ملا۔
وطن کے ان غیور جوانوں نے اپنے سینوں پر بارود باندھ کر 120 بھارتی ٹینکوں کو دفن کر دیا تھا۔
اور یوں لاہور کی سڑکوں پر ناشتہ کر کے اپنی فوج سے سلامی لینے کے بعد لاہور جیم خانہ میں جام سے جام ٹھکرانے کے لال بہادر شاستری کے خواب چکنا چور ہو گئے۔
17 روز تک جاری رہنے والی اس جنگ کی گرد بیٹھی تو بھارت اپنے سینکڑوں ٹینکوں اور درجنوں جنگی جہازوں سے محروم ہو چکا تھا۔ اسکے پانچ ہزار سے زائد فوجی جہنم وصل ہو چکے تھے اور اسکا غرور دھول چاٹ رہا تھا۔
اس سنہری تاریخ کا ایک ایک لفظ جو ہمارے شہیدوں کے لہو سے درخشاں ہیں، یہ عظیم دن ہمیں شہیدوں کے قربانیوں، غازیوں کی جرات اور اپنے اجداد کی وفاوں کی یاد دلاتا ہیں۔
اس مٹی کا ایک ایک ذرہ ان شہیدوں کے لہو کے ایک ایک قطرے کا مقروض ہیں۔ جن آزاد فضاوں میں ہم آج سانس لے رہیں ہیں اسکے ایک ایک جھونکے میں انکے مقدس لہو کی خوشبوں گھوندی ہیں ۔ دشمن یاد رکھ لے کہ مملکت خداداد پاکستان کا ایک ایک سپوت اپنے مادر ملت سے بے انتہا، بے پایا اور بے حد محبت کرتا ہیں۔
یہ اس دھرتی کی خوش نصیبی ہیں کہ اس سے عشق کرنے والے اسکےکونے کونے سے نکل کر اسکے ذدے ذرے کا خیال اپنی جان سے بڑھ کر رکھتے ہیں۔
جب بھی گھیرا تجھے ظلمتوں نے کبھی
مشال جاں لئے ہم مقابل رہیں
ہم نے مر کے تجھے سرخروں کر دیا
ہم بھی تیرے شہیدوں میں شامل رہیں
انکے حوصلوں کو دیکھ کر دشمن کی آنکھوں میں پھیلتا خوف اس بات کی علامت بن گیا کہ اس قوم کے بیٹوں کو آزمانے والے انکے قدموں کی دھول بن کر خاک ہو گئے۔
آج کا دن ان خراج عقیدت پر سلام بھیجنے کا دن ہے۔
یہ شہیدوں کی ایسی داستان ہے جسے جب جب اور جہاں جہاں وقت اور دشمن نے آزمایا ہمیشہ سرخروں پایا۔ شروع سے لے کر آج تک وہ کتنی مائیں ہیں جن کے بیٹے محاذ سے واپس تو نہیں لوٹتے لیکن اہل وطن کے لئے سلامتی کا پیغام بھیجتے ہیں۔ یہ کیسے باپ ہیں جو چاہتے ہیں کہ سب کے بچے سلامت رہیں چاہے انکے اپنے بیٹے وطن کا پرچم ہاتھ میں بلند کئے واپس لوٹے یا پھر اسی پرچم کو اپنا آخری لباس بنا لیں۔
سلام ہیں ان بیٹیوں کو جو باپ گنوا کر شہید کی بیٹیاں کہلاتی ہیں اور جن کے صدقے میں باقی سب بیٹیاں اپنے بابا کے سلامتی کے گیت گاتی ہیں۔
سلام ہیں شہیدوں کی بہادر بیویوں پر، وہ جو محبت کی قسم کھا کر شہید کی ڈولی میں بیٹھی تھی، وہ جو جینے مرنے کے خواب سجایا کرتی تھی، وہ جو ذرا سے جدائی پر رویا کرتی تھی، آج وہ وطن کی آبروں پر ملن کی ساری گھڑیاں نثار کر کے بیٹھی ہیں۔
سلام ہے ان ماوں کے عالی شان حوصلوں پر ۔
شہداء کے وارثوں آپکے حوصلوں، آپکی ہمت اور آپکے جذبوں کو سلام۔