قومی احتساب بیورو (نیب) نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی خیبرپختونخوا حکومت کے منصوبے بلین ٹری سونامی سے متعلق 4 انوسٹی گیشنز اور 6 مختلف انکوائریز کی منظوری دے دی۔
چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی زیر صدارت نیب ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس نیب ہیڈکوارٹرز اسلام آباد میں منعقد ہوا جہاں ڈپٹی چئیرمین نیب، پراسیکیوٹر جنرل، ڈی جی آپریشنز، نیب راولپنڈی، خیبرپختونخوا، سکھر اور کراچی کے ڈی جیز اور دیگر افسران نے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی۔
اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ تمام انکوائریز اور انویسٹی گیشنز الزامات کی بنیاد پر شروع کی گئی ہیں جو حتمی نہیں جبکہ نیب قانون کے مطابق تمام متعلقہ افراد سے ان کا مؤقف معلوم کر نے کے بعد مزید کارروائی کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔
بیان کے مطابق نیب کے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں عاصم مرتضٰی خان سابق مینجنگ ڈائریکٹر، چیف ایگزیکٹو آفیسر، رکن بورڈ آف ڈائریکٹرز پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ (پی پی ایل) اور دیگر کے خلاف بد عنوانی کا ریفرنس دائر کرنے کی منظوری دی۔
ان کے خلاف پرمیسرز مورانو فتوڈولے کو تیل و گیس کی تلاش کے ٹھیکے میں بدعنوانی کا الزام ہے، جس سے قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچا۔
نیب اعلامیے کے مطابق اجلاس میں 7 انوسٹی گیشنز کی منظوری دی گئی، جن میں المسہ ماڈل ٹاؤن اور پروفیسر ماڈل ٹاؤن کی انتظامیہ اور دیگر، بلین ٹری سونامی منصوبہ خیبر پختونخوا میں 4 الگ الگ انوسٹی گیشنز شامل ہیں۔
نیب نے ٹیکسٹ بورڈ خیبر پختونخوا کے افسران، اہلکاروں اور دیگر، مرزا خان صوہیرانی، محکمہ تعلیم اور خواندگی حکومت سندھ کے افسران و اہلکاران اور دیگر کے خلاف انوسٹی گیشنز کی بھی مظوری دے دی۔
بیان کے مطابق اجلاس میں بلین ٹری سونامی منصوبے سے متعلق انکوائریز سمیت دیگر 12 انکوائریز کی منظوری دی گئی۔
نیب کا کہنا تھا کہ اجلاس میں خیبرپختونخوا کے بلین ٹری سونامی منصوبے پر 6 الگ، الگ انکوائریز، شوگرسبسڈی اسیکنڈل میں شوگر ملز کی انتظامیہ اور دیگر کے خلاف انکوائری کی منظوری دی گئی ہے۔
اجلاس میں عبدالرحیم خان، ظہور احمد، عظمت علی شاہ اور حمزہ خان، عرش الرحمٰن، ایڈیشنل کنٹرولر عبد الولی خان یونیورسٹی مردان اور دیگر، بنوں شوگر ملز لمیٹڈ کے افسران، اہلکاران، آرکیالوجی ڈپارٹمنٹ خیبر پختونخوا کے افسران، اہلکاروں اور دیگر، سردار خان چانڈیو رکن صوبائی اسمبلی، برہان خان چانڈیو رکن صوبائی اسمبلی، ریونیو ڈپارٹمنٹ کے افسران، اہلکاروں اور دیگر کے خلاف بھی انکوائریز کی منظوری دی گئی۔
چئیرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ نیب ملک سے بدعنوانی کے خاتمے اور کرپشن فری پاکستان کے لیے انتہائی سنجیدہ ہے، نیب کی اولین ترجیح میگا کرپشن کے مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچانا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نیب نے احتساب سب کے لیے کی پالیسی کے تحت 468 ارب روپے بالواسطہ اور بلا واسطہ طور پر بدعنوان عناصر سے برآمد کرکے قومی خزانے میں جمع کروائے جو ایک ریکارڈ کامیابی ہے جبکہ نیب کی کارکردگی کو معتبر قومی اور بین الا قوامی اداروں نے سراہا جو نیب کے لیے اعزاز کی بات ہے۔
انہوں نے کہا کہ نیب کا تعلق کسی سیاسی جماعت،گروہ اور فرد سے نہیں بلکہ صرف اور صرف ریاست پاکستان سے ہے، نیب قانون کے مطابق بد عنوان عناصر سے قوم کی لوٹی گئی دولت بر آمد کرنے کے لیے ہر ممکن وسائل بروئے کار لا رہا ہے۔
نیب کے بیان کے مطابق چیئرمین نیب نے کہا کہ مفرور اور اشتہاری ملزمان کی گرفتاری کے لیے قانون کے مطابق اقدامات کیے جائیں گے تاکہ بدعنوان عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاسکے جہاں قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔
جسٹس (ر) جاوید اقبال نے نیب کے تمام ڈائریکٹر جنرلز کو ہدایت کی کہ شکایات کی جانچ پڑتال، انکوائریاں اور انوسٹی گیشنز مقررہ وقت کے اندر قانون کے مطابق منطقی انجام تک پہنچائی جائیں اور تمام انوسٹی گیشن آفیسرز اور پراسیکیوٹرز پوری تیاری، ٹھوس شواہد اور قانون کے مطابق معزز عدالتوں میں نیب کے مقدمات کی پیروی کریں تاکہ بدعنوان عناصر کو قانون کے مطابق سزا دلوائی جاسکے۔
یاد رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے 5 جولائی کو نجی ٹی وی کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ نیب کو مالم جبہ، بلین ٹری اور بی آر ٹی جیسے منصوبوں کی تحقیقات کرنی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ نیب اگر ان کیسز کی تحقیقات نہیں کرتا تو کسی کو تو پٹیشن دائر کرنی چاہیے کہ نیب ایسا کیوں نہیں کر رہا۔
اس سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے خیبرپختونخوا حکومت کے بلین ٹری سونامی منصوبے میں مبینہ کرپشن کے خلاف نیب سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
دوسری جانب نیب نے 5 اگست کو چینی اسکینڈل خاص طور پر برآمدات پر ملز مالکان کو دی گئی چینی کی سبسڈی کے معاملے میں تحقیقات کے لیے کمبائنڈ انویسٹی گیشن ٹیم (سی آئی ٹی) تشکیل دے دی تھی۔
چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے چینی پر سبسڈی وصول کرنے والے ہر شخص کے خلاف قانون کے مطابق شفاف، میرٹ اور پیشہ ورانہ انداز میں تحقیقات مکمل کرنے کی ہدایت کی تھی۔