لاہور: لاہور ہائیکورٹ نے موٹروے زیادتی کیس کے ملزم عابد ملہی کی گرفتاری پر انعام کے اعلان پر برہمی کا اظہار کر دیا۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ قاسم خان نے متروکہ وقف املاک بورڈ کی زمین پر پولیس قبضے کے خلاف کیس کی سماعت کی۔عدالت نے موٹروے زیادتی کیس کے ملزم عابد ملہی کی گرفتاری پر پولیس کو انعام دینے کے اعلان پر حیرت کا اظہار کیا۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے استفسار کیا کہ ملزم کو پکڑنا پولیس کی ذمہ داری ہے اس پر انعام کیسا؟ کیا اب پولیس انعام کا انتظار کرے گی پھر ملزم پکڑے گی؟ پولیس سے ملزم تو پکڑا نہیں جاتا اور زمینوں پر قبضے کر رہے ہیں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ عابد ملہی ان سے پکڑا نہیں جاتا اور جب پکڑا جاتا ہے تو 50 لاکھ روپے انعام کا اعلان کر دیتے ہیں۔
انہوں نے استفسار کیا کہ کیا پولیس کا کام ملزمان کو پکڑنا نہیں؟ اگر پولیس اہلکار ملزمان کو نہیں پکڑیں گے تو کیا کریں گے؟ یہ پنجاب حکومت نے نیا طریقہ ڈھونڈ لیا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سال 2003 میں معاہدہ ہوا لیکن ابھی تک قبضہ نہیں دیا گیا، پولیس والے اس ملک میں قبضہ گروپ کا کام کر رہے ہیں۔ اگر اس ملک میں پولیس قبضہ گروپ بن جائے گی تو پرسان حال نہیں۔
عدالت نے 24 گھنٹے میں 72 کنال زمین فوری واپس کرنے کا حکم دیتے ہوئے پولیس کو مخاطب کیا کہ سڑکیں آپ سے سنبھالی نہیں جاتیں، زیادتیاں ہورہی ہیں اشتہاری گھوم رہے ہیں۔
آئی جی پنجاب نے عدالت کو آگاہ کیا کہ یہ وفاقی حکومت کی نہیں بلکہ ٹرسٹ کی زمین ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ مجھے یہ بتائیں کہ پولیس نے قبضہ کس طرح کیا ہے؟ میں وردیاں شردیاں اتروا کر بھیج دوں گا۔عدالت نے آئی جی پنجاب تعیناتی کیس کے ساتھ کیس لف کرنے کی ہدایت کر دی۔
عدالت نے درخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ شکر کریں آپ کو خفیہ جیل میں نہیں ڈالا گیا۔ آپ اپنے کلائنٹ سے پوچھ لیں اور درخواست دیں۔ یہ حکومت پولیس کی آلہ کار بن سکتی ہے عدالتیں نہیں۔لاہور ہائیکورٹ نے پولیس کی جانب سے زمین پر قبضے سے متعلق کیس کی سماعت 3 نومبرتک ملتوی کر دی۔