ماہرین فلکیات نے پہلی بار ہماری کہکشاں کے اندر پُراسرار ریڈیائی لہروں اور ان کے ذریعے کا پتہ لگایا ہے جس سے امید کی جارہی ہے کہ کائنات کاایک بڑا معمہ حل ہونے میں مدد ملے گی۔
جب ایک دہائی قبل ان لہروں کے بارے میں سائنسدانوں کو معلوم ہوا تھا تب سے یہ ایک معمہ بنی ہوئی ہیں کہ یہ پراسرار لہریں اصل میں کہاں سے آرہی ہیں۔
اب تک سائنسدانوں کو ہماری کہکشاں سے باہر سے آتی لہروں کے بارے میں پتہ چلا تھا تاہم رواں سال 28 اپریل کو ناسا سمیت دیگر ممالک کی رصدگاہوں کی دوربینوں نے پہلی بار ہماری ہی کہکشاں سے آتی واضح فاسٹ ریڈیو برسٹ ریڈیائی لہریں دیکھی تھیں۔
امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا اور دیگر خلائی تحقیقاتی اداروں کی مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق یہ طاقتور ریڈیائی لہریں یا فاسٹ ریڈیو برسٹ (ایف آر بی) بہت کم وقت تقریباً ملی سیکنڈز کے لیے پیدا ہوتی ہیں۔
اس واقعے کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ سائنسدانوں کو یہ بھی پتہ چلا ہے کہ یہ لہریں کہاں سے پیدا ہوکر آرہی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ان لہروں کا ذریعہ طاقتور مقناطیسی نیوٹرون ستارہ ایس جی آر (1935+2154) تھا۔