ورجینیا: امریکی فوج کا تحقیق ادارہ ’’آرمی ریسرچ آفس‘‘ (اے آر او) آج کل ایک ایسے اچھوتے منصوبے پر کام کررہا ہے جس کے مکمل ہونے کے بعد فوجیوں کے دماغ پڑھے جاسکیں گے اور صرف ’’دماغی رابطے‘‘ کے ذریعے ہی انہیں براہِ راست کوئی حکم دیا جاسکے گا۔
جنگی میدان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال سے متعلق مستند امریکی ویب سائٹ ’’سی فور آئی ایس آر نیٹ‘‘ (C4ISRNET) کے ایک تازہ مضمون میں بتایا گیا ہے کہ امریکی فوج اس منصوبے پر آئندہ ایک سال کے دوران 62 لاکھ 50 ہزار ڈالر خرچ کرے گی۔
اس منصوبے میں شریک ایک امریکی ماہرِ اعصاب ڈاکٹر حامد کریم کا کہنا تھا کہ اب تک وہ دماغ میں پیدا ہونے والے مختلف سگنلوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔
ان میں ایک طرح کے سگنل وہ ہیں جو صرف معلومات کے تبادلے سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ سگنلوں کی دوسری قسم وہ ہے جن کے ذریعے ’’عمل کا حکم‘‘ بھی دیا جاتا ہے۔ اگرچہ اسے ذہن پڑھنا تو نہیں کہا جاسکتا لیکن یہ اسی سمت ایک اہم قدم ضرور ہے۔
اس تحقیق کا اصل ہدف یہ ہے کہ دماغ میں پیدا ہونے والے اعصابی سگنلوں کی مختلف اقسام کے علاوہ ہر سگنل کے انفرادی مفہوم کو بھی سمجھا جائے تاکہ بعد میں ٹھیک ویسے ہی سگنلوں کے ذریعے سپاہیوں کو زبانی احکامات کے بجائے ’’دماغی و اعصابی احکامات دیئے جاسکیں اور اس کے ردِعمل دماغ سے اٹھنے والے سگنلوں (اور ان سگنلوں کے مفہوم) سے بھی مکمل واقفیت حاصل کی جاسکے۔
یعنی اسے ہم ایک طرح سے ’’ملٹری ٹیلی پیتھی‘‘ کا منصوبہ بھی کہہ سکتے ہیں جو پراسرار جادوئی کہانیوں کے بجائے سائنس فکشن ناولوں کے زیادہ قریب محسوس ہوتا ہے۔
یہ منصوبہ کب تک مکمل ہوگا؟ (اور کبھی مکمل ہو بھی سکے گا یا نہیں) اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ اگر یہ منصوبہ کامیابی کے ساتھ مکمل ہوگیا تو پھر ملٹری کمیونی کیشن کی دنیا میں ایک غیرمعمولی انقلاب ضرور آجائے گا۔