جلسے اور جمہوریت

لاہور میں پی ڈی ایم کے جلسے میں لوگوں کی تعداد پر بحث ابھی تک جاری ہے ‘سیاسی جماعتوں کی کامیابی کا اندازہ الیکشن میں انکی جیتی ہوئی سیٹوں سے یا جلسوں میں شرکاءکی تعداد سے لگایا جا تا ہے ‘صدر ٹرمپ بیس جنوری 2017 ءکو صدارت سنبھالنے کے بعد ایک طویل عرصے تک اس بحث میں الجھے رہے کہ انکی تقریب حلف وفاداری میں لوگوں کی تعداد زیادہ تھی یا براک اوباما کے حلف اٹھانے کی تقریب میں زیادہ لوگ آئے تھے مخالفین نے خم ٹھونک کر انہیں غلط ثابت کرنے کیلئے دلائل کے انبار لگا دیئے دونوں تقریبات کی سٹیلائٹ تصویریں شائع کی گئیں مگر صدر ٹرمپ آج تک اپنی ضد پر قائم ہیںکسی بھی دوسرے سیاسی تنازعے کی طرح اس قضیے کا فیصلہ بھی آج تک نہیں ہو سکا لاہور میں پی ڈی ایم کا جلسہ بھی ہمیشہ متنازعہ رہیگا حکومت تو تیرہ دسمبر کی صبح ہی سے کہہ رہی تھی کہ چار پانچ ہزار لوگ ہوں گے پولیس اور سپیشل برانچ کی رپورٹوں کے مطابق چودہ پندرہ ہزار لوگ تھے بی بی سی ‘ الجزیرہ اور لاہور کے چند کالم نگاروں کی رائے میں شرکا ءکی تعداد تیس چالیس ہزار تھی ‘پی ڈی ایم کو اس جلسے میں حکومت‘ کورونا اور موسم کی مشکلات کے علاوہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی اسیری جیسے مسائل کا بھی سامنا تھا انکی موجودگی میں شرکاءکی تعداد زیادہ ہو سکتی تھی اسکے باوجود آزاد اور غیر جانبدار مبصرین کی رائے میںیہ ایک کامیاب جلسہ تھا‘ پی ٹی آئی حکومت کے دعوﺅں کے مطابق اسے ناکام تسلیم کر بھی لیا جائے تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ پی ڈی ایم کی گیارہ جماعتیں فروری کے پہلے ہفتے لانگ مارچ میں ایک ہزار گاڑیاں اور آٹھ دس ہزار لوگ لیکر اسلام آباد نہیں پہنچ سکتیں اتنی تعداد میں لوگ دارالخلافے میںکاروبار زندگی مفلوج کرنے کے علاوہ ملکی اقتصادیات کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچائیں گے ‘ حزب اختلاف کے استعفے اس بحران کو مزیدگھمبیربنا دیں گے اس پولیٹیکل تھیٹر کی قیمت 2014 ءمیں بھی عوام نے بڑھتی ہوئی مہنگائی کی صورت میں ادا کی تھی اور اب بھی ایسا ہی ہو گا‘ امریکہ میں اگر اس سوال پر غور ہو رہا ہے کہ کیا امریکی جمہوریت ڈونلڈ ٹرمپ کے لگائے ہوئے زخموںسے جانبر ہو سکتی ہے تو پاکستان میں بھی اسی مسئلے کے حسن و قبح کا جائزہ لیا جا سکتا ہے ایک ترقی پذیر ملک کی جمہوریت آخر کب تک آئے روز کے دھرنوں اور مظاہروں کا بوجھ اٹھا سکتی ہے کیا کسی بھی ملک میں جمہوریت اتنے صدمے برداشت کر سکتی ہے اسلام آباد میں اسوقت فریقین میں جو مکالمہ ہو رہا ہے اسکی شدت ظاہر کرتی ہے کہ ہمارا جمہوری نظام سخت خطرات میں گھرا ہوا ہے نیوز میڈیا جس بے نیازی سے اس بحران کی خبر رسانی کر رہا ہے وہ اپنی جگہ ایک افسوسناک معاملہ ہے طاقتور ریاستی ادارے بھی اس سیاسی مبارزت سے لا تعلق نظر آرہے ہیںگویا کتنے پت جھڑ ابھی باقی ہیں بہار آنے میں والا معاملہ ہے کہتے ہیں کہ جمہوی نظام نہایت لچکدار اور ڈھیٹ واقع ہوا ہے بالکل جنگل کے درختوں کی طرح جو طوفانی ہواﺅں کے گزر جانے کے بعد بھی سر اونچا کئے کھڑے رہتے ہیںامریکہ اور پاکستان دونوں ممالک میں پاپولسٹ حکمرانوں نے جمہوری نظام کو آمرانہ انداز سے چلانے کی کوشش کی ہے اسکے باوجود جمہوریت ٹوٹ کر بکھرنے کی بجائے کسی لچکدار ٹہنی کی طرح جھکتی رہی ہے لیکن اسکا لچکدار ہونا اس بات کی ضمانت نہیں ہے کہ یہ ٹوٹ نہیں سکتی ایک اچھا نظام حکومت شدید دباﺅ کے اندر بھی چلتا رہتا ہے دنیا میں ہر جگہ ریاستی اداروں کو چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور سیاستدانوں کا اداروں کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنا بھی کسی ایک ملک تک محدود نہیںصدر ٹرمپ نے چار سال تک سی آئی اے‘ پینٹا گون‘ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور جسٹس ڈیپارٹمنٹ کو دیوار سے لگائے رکھااس سے بڑھ کر یہ کہ انہوں نے ریپبلکن پارٹی کو بھی اپنی مرضی کے مطابق استعمال کیا گزشتہ ماہ کے انتخابات میں انہوں نے چھ ریاستوںکے انتخابی اداروں‘ عدالتوں حتیٰ کہ سپریم کورٹ کو بھی انتخابی نتائج کو مسترد کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سوا دو سو سال تک جمہوری نظام پر کاربند رہنے والے ملک میںبھی جمہوریت کا حلیہ بگاڑا جا سکتا ہے فرانس میں صدر ایمینویل میکرون کہ جنہیں ڈارلنگ آف دی لیفٹ کہا جاتاتھا نے ڈیڑھ سال بعد ہونیوالے انتخابات میں فتحیاب ہونے کےلئے مسلمانوں کے خلاف طبل جنگ بجایا ہوا ہے میکرون دائیں بازو کے ووٹروں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے مسلمانوں کےخلاف نئے قوانین لاگو کر رہے ہیں یہ بھی ریاستی اداروں کو ذاتی مفاد کیلئے استعمال کرنیکی ایک مذموم کوشش ہے ‘موجودہ عالمی فضا میں قنوطیت ایک بہتر فکری رویہ نظر آتا ہے امریکہ میں یہ رحجان رکھنے والے لوگ کہہ رہے ہیں کہ اس مرتبہ اگر انکی جمہوریت ڈونلڈ ٹرمپ کی یلغار برداشت کر گئی ہے تو اسکا یہ مطلب نہیں کہ آئندہ بھی ایسا ہی ہو گا اسکے بر عکس خوش گمان لوگوں کا کہنا ہے کہ انکا نظام حکومت اگر ڈونلڈ ٹرمپ کی شعلہ مزاجی‘ بے حکمتی ‘ بہتان بازی او ر فتنہ و فساد برداشت کر گیا ہے تو یہ اسکے ناقابل تسخیر ہونیکا ثبوت ہے بہ زبان شاعر وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ
رات بھر اک چاپ سی پھرتی رہی چاروں طرف
جان لیوا خوف تھا لیکن ہوا کچھ بھی نہیں
امریکہ اور پاکستان دونوں ممالک میں اس امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ داخلی بحرانوں نے انکی جمہوریتوں کو ایسے زخم لگائے ہوں جو فی الحال نظر نہیں آ رہے یہ نقصانات دور رس بھی ہو سکتے ہیںفی الحال اس خوش گمانی میں پناہ لی جاسکتی ہے کہ ایک جمہوری نظام کی وجہ سے ڈونلد ٹرمپ جیسا بے ڈھب حکمران اپنے انجام کو پہنچا۔