افغان معیشت کی موجودہ صورتحال یہ ظاہر کرتی ہے کہ اس ملک کی آمدنی کے بڑے ذرائع جن میں سرحدی تجارت‘ حوالہ ہنڈی کا کاروبار اور پھلوں کی برآمدشامل ہیں مل کربھی اتنی آمدنی نہیں دے سکتیں جو لوگوں کو روز مرہ کی بنیادی سہولتیں مہیا کر نے کیلئے ضروری ہے ماہرین کے مطابق اسوقت افغانستان کو کم از کم چار ارب ڈالر سالانہ کاروبار مملکت چلانے کیلئے چا ہئیں۔فتح کابل کے بعدگذشتہ پانچ ہفتوں میں کسی بھی ملک نے افغانستان کی نئی حکومت کو تسلیم کیا ہے اور نہ ہی اسے کوئی مالی امداد دینے کا اعلان کیا ہے امریکہ‘ یورپی یونین اور چین نے صرف اشیائے ضروریہ کی ترسیل کا وعدہ کیا ہے۔ بیس برسوں میں دو کھرب ڈالر سے زیادہ خرچ کر نے کے بعد چاہئے تو یہ تھا کہ امریکہ نے افغانستان کو ایک ایسا ملک بنایا ہوتا جسمیں ایک مضبوط ریاستی ڈھانچہ ہوتااور ایک فعال معیشت ہوتی جو لوگوں کو روزگار اور بنیادی سہولتیں مہیا کرتی ایسا ہوا بھی تو دو چار شہروں میں باقی کا ملک بے آ ب و گیاہ ہی رہاایسا کیو ں ہوا اسکی ایک وجہ تو جنگ تھی اور دوسری یہ کہ امریکہ نے ایک پراکسی اشرافیہ تو تخلیق کر دی مگر اسنے اپنے مفتوحہ ملک کی معیشت کی طرف ذرہ بھر بھی توجہ نہ دی ڈالروں کی بھرکھا برسی بھی تو چند سر سبز وشاداب کھلیانوں پرجو دشت و دمن پیاسے تھے وہ پیاسے ہی رہے
پانی سمندروں پہ برستا دکھائی دے
صحرا کہ بوند کو بھی ترستا دکھائی دے
اس تباہ کن جنگ میں جتنی بھی سرمایہ کاری ہوئی اسکا ایک بڑا حصہ طاقتور لوگوں کو ملتا رہاان میں امریکی کنٹریکٹرز اور افغان اشرافیہ دونوں شامل تھے اس اشرافیہ میں سرکاری افسروں کے علاوہ وہ وار لارڈز بھی تھے جنہیں گورنر‘ ممبر پارلیمنٹ اور ریاستی اداروں کا سربراہ بنا یا گیایا فوج میں اعلیٰ عہدے دئے گئے نیو یارک ٹائمز نے پندرہ ستمبر کے اداریے میں لکھا ہے We did not topple the Taliban. We paid war lords bags of cash to do it یعنی ہم نے طالبان کو مغلوب نہیں کیا بلکہ وار لارڈز کو کیش کے تھیلے دیئے کہ وہ یہ کام کریں ایک خاتون محقق Sarah Chayes جو قندھار میں کئی برسوں تک سپیشل ملٹری اسسٹنٹ کے عہدے پر تعینات رہیں نے فارن افیئرز کے حالیہ شمارے میں لکھاہے ”وہ امریکی نیٹ ورک جو افغان حکومت کی نگرانی پرمامور تھا اسکے افسروں نے اپنے کام کی طرف توجہ ہی نہیں دی وہ اپنی جیبیں بھرتے رہے اور اس کام میں وہ بڑے شاندار طریقے سے کامیاب ہوئے“ اسے انگریزی میں یوں لکھا گیا ہے And at that task they proved spectacularly successful بہ الفاظ دیگر چوروں پر مور پڑ گئے۔
افغانستان بھیجے گئے ڈالروں کا انبار کہاں گیا اس طلسم ہوشربا پر بہت کچھ لکھا گیا ہے 2008کی ایک تحقیق کے مطابق افغانستان کو دیئے گئے فنڈز میں سے ہر سال چالیس فی صد ڈونرز ممالک کی کمپنیوں کو کاروباری منافع اور ملازمین کی تنخواہوں کی صورت میں واپس جاتا رہاایک حالیہ ریسرچ پیپر میں لکھا ہے کہ بیس برسوں میں تعمیر و ترقی کیلئے مختص کی گئی رقم کا صرف بارہ فیصد افغانستان کی حکومت کو دیا گیا اس تحقیق میں ان اربوں ڈالروں کا ذکربھی ہے جو امریکی کمپنیاں ہر سال ایک جنگ زدہ ملک میں نیشن بلڈنگ کے نام پر کماتی رہیں۔یہ جنگ کس نے جیتی‘ اسکا فاتح کون ہے اسکا جوابCenter For Public Integrity نام کے ادارے نے ایک رپورٹ میں دیا ہے یہ ادارہ ترقی پذیر ممالک کو دی جانیوالی امریکی امداد کا حساب کتاب رکھتا ہے اس رپورٹ کا عنوان ہے Of War Windfall یعنی جنگ میں چھپڑ پھاڑ کر ملنے والی دولت اسکے مطابق یہ جنگ ان کمپنیوں نے جیتی ہے جنہوں نے 2000 کے الیکشن میں جارج بش کی صدارتی مہم کیلئے خطیر رقم مہیا کی تھی اسمیں لکھا ہے کہ عراق اور افغانستان کی جنگیں صدر بش اور انکے دوستوں کیلئے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوئیں صدر بش نے خود کو ایک ہیرو بنا کر پیش کیا اور ایکWar Time President ہونیکی حیثیت سے وہ دوسری مرتبہ صدارت حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہے امریکی عوام کو جب ان جنگوں کی حقیقت معلوم ہوئی تو اسوقت بہت دیر ہو چکی تھی رپورٹ میں لکھا ہے کہ افغان جنگ کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ اس میں لگنے والا سرمایہ ہی اس ملک کی اصل معیشت تھا یعنی اسکا اپنا معاشی ڈھانچہ سرے سے تھا ہی نہیں افغانستان میں جب امریکی فوج کی تعداد زیادہ ہوتی تو اسکی معیشت بھی اچھی ہو جاتی جب فوج کی تعداد کم ہوتی تو اسکی معیشت بھی کمزور ہو جاتی اسکے برعکس عراق کی اکانومی تیل کی دولت کے زور پر چل رہی تھی تباہی اور بربادی کا شکار عراق بھی ہوا مگر اسمیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونیکی سکت تھی اس رپورٹ میں بیان کردہ امریکی کمپنیوں کی افغانستان میں ہوشربا کرپشن کا احوال اگلے کالم میں ملاحظہ فرمائیے۔