کہتے ہیں کہ انسان کی گزر بسر امیدوں پر ہوتی ہے اور یہ کوئی نامناسب سوچ بھی نہیں ‘ یعنی کسی سیاسی جماعت کے بغیر اگر کوئی کسی سے کوئی توقع رکھے یا امید باندھے تو اس نے گویا کوئی برائی نہیں کی ‘ لہٰذا ہم نے بھی یونیورسٹی کیمپس کے بہتر بلکہ موثر انتظام و انصرام کی امید اس لئے باندھی کہ جب پہلے سوال کیا جاتا یا تعمیری تنقید کی جاتی تو اکثر خاموشی جبکہ کبھی کھبار یہ جواب سننے میں آتا کہ موثر نظم و نسق یا بہتر گورننس کے لئے جس افرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے وہ یونیورسٹی انتظامیہ کے پاس نہیں ‘ چلئے یہ بات درست سہی مگر اب جبکہ ایک دو نہیں بلکہ پورے 70 سکیورٹی گارڈ اور وہ بھی ایف سی اور پولیس سے ریٹائرڈ بھرتی کئے گئے تو یہ توقع رکھنا بے جا نہ ہو گاکہ اب یونیورسٹی کو حقیقی تعلیمی ماحول سے ہمکنار کرنا کوئی ناممکن کام نہیں ہو گاکوئی یہ نہیں کہتا کہ لوگ پاﺅں سر پر رکھ کر روانہ ہوں لیکن ہرکام کے لئے ایک طریق اور ایک حد ہوتی ہے مطلب آپ نے دیکھا ہو گا کہ بعض مقامات پر تختی نصب ہوتی ہے کہ یہ شارع عام نہیں ‘ یا ”ممنوعہ علاقہ“ یہ اس لئے کہ وہاں پر ہر کسی کو داخلے ‘ گزرنے اور اس کے پاس نقل و حمل کی
اجازت نہیں ہوتی ‘ اسی طرح بطور مثال اسلام آباد کے ریڈ زون کے بارے میں تو ہر کسی نے سنا ہو گاکہ ‘ ریڈ زون یا سرخ لکیر کا مطلب ہے کہ اس سے آگے مت جائیں ‘ قاعدے ضابطے کی پاسداری کرنیوالا ایک عام شہری اپنے آپ کو اس سے دور رکھتا ہے میرے نزدیک یونیورسٹیوں کا ماحول سب سے زیادہ ریڈ زون ہونا چاہئے مگر افسوس کیساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ یونیورسٹی کیمپس میںکسی قسم کا قاعدہ ضابطہ اور ماحول بچانے کے لئے کوئی ریڈ زون اور کوئی طریقہ کار نظر نہیں آ رہا جس کے سبب جس تیزی سے برباد ہو رہا ہے اس کی مثال نہیں ملتی ‘ صرف یہ نہیں کہ صفائی ستھرائی اور ہریالی جیسی بنیادی ضروریات کو بالائے طاق رکھا گیا بلکہ باہر سے آنیوالی گاڑیوں کے لئے کسی قسم کی ایس او پیز یا احتیاطی تدابیر اور کسی بھی قاعدے ضابطے کو خاطر میں نہیں لایا جاتا لہٰذا یونیورسٹی اب ایک تعلیمی ادارہ یا درسگاہ کم جبکہ لاریوں کا اڈا کاروباری مرکز اور مارکیٹ یا بازار قدرے زیادہ نظر آنے لگی ‘ سوچنے اور خود احتسابی کا مقام یہ بھی ہے کہ ان گاڑیوں میں واضح اکثریت وہ ہیں جو قانوناً قابل استعمال یا قابل سروس بھی نہیں مثال کے طور پر30 اور40 سال پرانی پک اینڈ ڈراپ گاڑیاں ‘ دھواں دار ٹو سٹروک رکشے ‘ لا تعداد غیر قانونی پرائیویٹ ٹیکسی گاڑیاں جبکہ ون ویلنگ ریس اور سکریچنگ والے رہی سہی کسر پوری کر رہے ہیں پورا کیمپس کو چھوڑ کر محض پشاور یونیورسٹی میں ملازمین کی تعداد ہزاروں میں ہے لیکن جس ماحول میں ان کا گزر بسر ہے اور جہاں پر روزی کماتے ہیں اور تمام تر مراعات لیتے ہیں اس ماحول کی بربادی کا انہیں ذرا بھر احساس نہیں ‘ کہا جاتا ہے کہ ان قابل سروس اور ناقابل استعمال گاڑیوں اور
رکشوں میں زیادہ تر یونیورسٹی ملازمین بالخصوص ریٹائرڈ ملازمین کی ہے ۔دروغ بہ گردن راوی لیکن اگر یہ سچ ہے تو پھر یونیورسٹی کے ماحول کی بربادی پر ان کی خاموشی بلکہ تماشائی بننا سمجھمیں آتا ہے اس طرح تہہ بازاری اور من مانی قیمتوں کے ہتھیانے سمیت یہ دیکھنا اور معلوم کرنا بھی کسی نے گوارا نہیں کیا کہ ان کیفے کینٹینوں اور سرراہ زمین پر لگائے گئے خوانچہ خانوں میں سے خوردنوش کی جو اشیاءطلباءکو اپنی مرضی کی قیمت وصول کرکے دی جا رہی ہیں وہ کھانے پینے کی قابل بھی ہیں یا نہیں ؟ حقیقت یہ ہے کہ یونیورسٹی کیمپس کے ماحول کی یہ بربادی ہماری بے حسی غیر ذمہ داری حرص زر اور اونر شپ کے احساس سے عاری ہونے کا منطقی نتیجہ ہے ورنہ یہ سب کچھ ایک طریق کے تحت لا کر ماحول بچانے میں کوئی دیر نہیں لگتی یونیورسٹی انتظامیہ کی کاوشیں اپنی جگہ مگر یہ ذمہ داری حکومت ‘ ٹریفک پولیس ،کیمپس پولیس یونیورسٹی انتظامیہ اور اساتذہ پر یکساں طور سے عائد ہوتی ہے مگر باعث حیرت امر یہ ہے کہ تاحال جو کچھ سامنے آتا ہے اس سے ظاہر ہے کہ کوئی بھی اپنی ذمہ داری نبھانے کیلئے تیار نہیں۔