فروغ تعلیم‘ ترجیحات پر نظرثانی کی ضرورت

یہ بات اس دھرتی کے کسی بھی باسی کیلئے نئی نہیں ہوگی کہ ہماری ہر حکومت نے یہ دعویٰ بار بار دہرایا ہے کہ تعلیم حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے بلکہ اولین ترجیح ہے مگر اسکے باوجود تعلیم‘ تحقیق میں ہم ترقی یافتہ ممالک تو کیا علاقے کے دوسرے ممالک سے بھی کہیں پیچھے رہ گئے ہیں ‘معاملہ فہم لوگ کہتے ہیں کہ سنجیدگی اور منصوبہ سازی کا فقدان‘ تعلیم کے کئی نظام جبکہ آٹے میں نمک کے برابر تعلیمی بجٹ اس پسماندگی کی اصل وجوہات ہیں‘ صوبائی حکومت نے اعلیٰ تعلیمی اداروں کی پنشن کے بوجھ کو اپنے ذمے لینے‘ جامعات کے مالی بحران کے خاتمے اور ہنرمند گریجویٹس کو خود روزگاری کیلئے بلاسود قرضوں کی فراہمی کے یکے بعد دیگرے جو وعدے اور اعلانات کئے ہیں صوبے کی بالخصوص پرانی جامعات اس کو عملی جامہ پہنانے کی منتظر ہیں۔ دیکھتے ہیںکہ اعلانات اور اس پرعملدرآمد کے انتظار کا کیا نتیجہ سامنے آتا ہے؟ مگر فی الوقت توحالت یہ ہے کہ گزشتہ ایک سال سے زیادہ عرصہ سے صوبے کی کم از کم دو درجن یونیورسٹیاں مستقل وائس چانسلر سے خالی پنشن اور تنخواہوں کی ادائیگی میں اربوں روپے کی مقروض جبکہ اساتذہ بلاجواز طورپر ترقیوں سے محروم ہیں‘ ایسے میں بعض لوگ پشاور یونیورسٹی اور حکومت کے اس مشترکہ ٹاسک کیلئے بھی فکر مند ہونگے جس کا اعلان صوبے کے انتظامی سربراہ اور جامعات کے نئے چانسلر نے کیا ہے اور جس کے تحت رواں سال پشاور یونیورسٹی میں میڈیکل کالج اور اس سے منسلک ہسپتال اور نرسنگ انسٹیٹیوٹ کا اضافہ کیا جائے گا اور ان ترقیاتی اقدامات میں50 کروڑ روپے حکومتی گرانٹ بھی شامل ہوگی ‘ہماری تعلیمی پسماندگی کی کئی طرح کی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن جہان دیدہ لوگوںکے نزدیک سب سے بڑی وجہ تعلیم کا پیسے سے محروم ہونا ہے یعنی ملک کا تعلیمی بجٹ نہ ہونے کے برابر اس لئے ہے کہ اس سے بمشکل تنخواہیں اور پنشن
 پوری ہو سکتی ہیں اور اگر اس سے تھوڑا بہت بچ جائے تو پھر وہ اخراجات متفرقہ کا حصہ ہوگا اب اگر تعلیم محض تنخواہوں اور دوسرے اخراجات کا نام ہو تو پھر خیر چلنے دیجئے اور اگر ایسا نہ ہو بلکہ تعلیم و تربیت کی بدولت قوم کی تعمیر کی جاتی ہے اور جدید تحقیق میں پیش رفت سے ملک کو ہر طرح کے استحکام سے ہمکنار کیا جاتا ہے تو پھر نوٹ کرلیں کہ یہ چیز یہاں پر نہیں ہے‘ اب جبکہ ایک طرف یونیورسٹی اساتذہ نے اپنے دیرینہ مطالبات کو ایک بار پھر دہراتے ہوئے بصورت دیگر سڑکوں پر آنے کی بات کی ہے اور دوسری طرف جامعات کی طالبات کو لیپ ٹاپ اور گریجویٹس کو قرض حسنہ دینے کا حکومتی اعلان سامنے آیا ہے تو دیکھنا یہ ہے کہ کون سے اعلان پر پہلے عمل درآمد ہوگا یعنی اساتذہ کا سڑک پر بیٹھنے اور کلاس رومز کو تالے لگانے یا جامعات کو مالی بحران سے نکالنے‘ مستقل وائس چانسلروں کی تقرری‘ طلباءکو لیب ٹاپ ملنے اور ہنرمند گریجویٹس کو بلاسود قرضوں کی فراہمی کیساتھ ساتھ قدیم درسگاہ میں میڈیکل کالج‘ ہسپتال اور نرسنگ انسٹیٹیوٹ کے قیام اور اس کیلئے 50کروڑ روپے گرانٹ دینے کے اعلان پر؟ تعلیم سے دلچسپی رکھنے والے واقف حال لوگوں کا کہنا تو یہ ہے کہ جب تک ہمارے قومی بجٹ کا کم از کم پانچ فیصد تعلیم کے لئے مختص نہ ہو تب تک قومی تعمیر‘ ایک مثبت جمہوری معاشرے کے قیام‘ اقتصادی استحکام اور ملک سے انتہا پسندی‘ پسماندگی اور دہشت گردی کے خاتمے کی کوئی کوشش نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکتی‘ اسی طرح نظام تعلیم اور تعلیمی اداروں میں کڑا احتساب بھی ناگزیر ہوگا مطلب تعلیمی ادار وں کے اپنے ذرائع اور حکومتی گرانٹ کی شکل میں ملنے والے پیسے کیسے اور کہاں خرچ ہو رہے ہیں؟ متفرقہ اخراجات میں کمی کیسے لائی جاسکتی ہے؟ تعلیمی ادارے کفایت شعاری میں کہاں کھڑے ہیں؟ ملازمین کی تعداد ضرورت سے زیادہ ہے یا کم؟ فیسوں اور واجبات میں مزید اضافہ جائز اور ممکن ہے یا نہیں؟ ہر یونیورسٹی میں زیر استعمال درجنوں گاڑیوں کا ٹرانسپورٹ پول میں کھڑی کرنا ممکن ہے یا نہیں؟۔