جامعات میں اضطراب کی لہر

یہ کوئی مہینے دو مہینے یا سال دو سال کی بات نہیں بلکہ گزشتہ ایک عشرے سے یونیورسٹیوں میں بے یقینی‘ مایوسی اور اضطراب کی جو لہر آئی ہے وہ شاید نہ رکنے اور نہ تھمنے والی ہے‘اس کی بنیادی وجہ تعلیمی بجٹ کا نہ ہونا اور جامعات پر اپنی مرضی ٹھونسنے کے اقدامات ہیں جوکہ اٹھارویں آئینی ترمیم کی آڑ میں اٹھائے جارہے ہیں حالانکہ یونورسٹیوں کی اپنی قانونی باڈیزقائم ہیں اور وہ قانونی طور پر جامعات کے امور نمٹانے کی مجاز ہیں بے چینی کی یہ لہر سب سے زیادہ گہری اور زود اثر قدیم درسگاہ جامعہ پشاور میں محسوس کی جارہی ہے جہاں پر حصہ بقدر جثہ کے مصداق حاضر سروس اور ریٹائرڈ دونوں طرح کے ملازمین کی تعداد دوسری جامعات سے کہیں زیادہ ہے‘ یہی وجہ ہے کہ رواں سال کے وسط سے یونیورسٹی ملازمین کو کسی مہینے کی تنخواہ مقررہ تاریخ پر نہیں ملی جبکہ پنشنرز کی تو بات ہی الگ ہے کیونکہ یونیورسٹی کی اپنی آمدنی تو صوبے میں سرکاری یونیورسٹیوں کی تعداد32 تک پہنچنے‘کورونا وباء کی بندشوں اور تیزرفتار مہنگائی کے ہاتھوں اب تقریباً برائے نام رہ گئی ہے جامعہ کو سال بھر میں جتنی حکومتی گرانٹ ملتی ہے وہ بمشکل چھ مہینوں کی صرف تنخواہوں کیلئے کافی ہوتی ہے اب پنشن اور ہر مہینے کروڑوں روپے کے دوسرے اخراجات بالخصوص گاڑیوں کی ریل پیل‘بجلی‘گیس اور ڈیزل پٹرول کا کیا بنے گا؟ اگر کسی کی سوچ یہ ہو کہ یہ لوگ بھی اپنے چینی دوستوں کی طرح سائیکل سوار بن کر کفایت شعاری کی مثال قائم کرینگے تو میرے نزدیک یہ ایک بھول ہوگی اس وقت حالت یہ ہے کہ صوبے کے انتظامی سربراہ کی اعلانیہ منظوری کے باوجود جامعہ کے اساتذہ کی ترقیاں لٹکائی گئی ہیں اور یہ سلسلہ گزشتہ سات سال سے جاری ہے قواعد کے تحت تو ترقی کیلئے سنیارٹی ہارڈ شپ اور پی ایچ ڈی ہولڈر ہونا لازمی ہوتا ہے مگر یہانپر”تبدیلی“ کی ایک نئی نوید یہ سننے میں آئی ہے کہ یونیورسٹی اساتذہ ترقی کیلئے ایٹا ٹسٹ سے گزریں گے؟ ہاں مگر یہ تو بالکل ایک عجوبہ ہوگا کہ دوسروں کا ٹسٹ مرتب کرنے اور لینے والے اب خود ٹسٹ میں بیٹھیں گے اور وہ بھی باوجود اس کے کہ ان کی ترقی کے تمام تر قواعد و ضوابط الگ سے موجود ہیں؟ ان میں تقریباً80 سے زائد پی ایچ ڈی ہولڈر وہ خواتین لیکچرار بھی شامل ہیں جو کہ عرصہ آٹھ دس سال سے لیکر پندرہ سولہ سال سے پی ایچ ڈی کرکے بھی لیکچرر ہی بیٹھی ہوئی ہیں یونیورسٹی اساتذہ کی ایسوسی ایشن کی طرف سے صوبے کے انتظامی سربراہ اور متعلقہ محکمے کو بارہا خطوط بھجوائے گئے لیکن مسئلہ جوں کا توں ہے ایسے میں پنشنرز بھی تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق  سڑکوں پر آنے کیلئے پرتول رہے ہیں کہتے ہیں کہ پنشن بچاؤ تحریک کی ان ڈور تیاریاں بھی مکمل کرلی گئی ہیں البتہ صرف اس کمیٹی کی رپورٹ کے منتظر ہیں جو وزیراعظم نے تشکیل دی ہے ویسے کمیٹیوں کی تاریخ سے واقف لوگ تو یہ تبصرہ کرتے رہتے ہیں کہ حکومت کا جس مسئلے کے حل کاارادہ نہ ہو اس کے لئے کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے لہٰذا حاضر سروس اساتذہ کی ترقیوں سے محرومی‘ پنشنرز کو ان کی عمر کے ان آخری ایام میں حق اور وہ بھی قانونی حق نہ ملنے اور نان ٹیچنگ سٹاف کی فیڈریشن کا یہ فیصلہ کہ وہ پنشن کے حق کے تحفظ میں کسی بھی اقدام سے گریز نہیں کرے گی‘ مطلب لاوا ابلنے کے لئے بالکل تیار ہے البتہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ سارے متاثرین ایکا کی اس طرح مثال قائم کرینگے یا نہیں جو حال ہی میں تمام تر پارلیمنٹرین نے اپنی تنخواہوں میں دو سو فیصد اضافے کیلئے قائم کر دی۔ پی ایچ ڈی ہولڈر خواتین لیکچررز نے اپنی ایک حالیہ مشاورتی نشست میں فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ کسی بھی وقت سڑک پر دھرنا دے سکتی ہیں؟ جبکہ فپواسا اور پیوٹا کے ارادے بھی اس سے مختلف نہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ تعلیم کی اس ابتر حالت میں جامعات”اڑان پاکستان“ کو پروان چڑھانے میں کتنا حصہ ڈالنے کی پوزیشن میں ہوں گی؟۔