بار بار انکار اور انتباہ کے باوجود صوبے کی جامعات بالخصوص پرانی یونیورسٹیوں کو سہ ماہی وفاقی گرانٹ ملنے کا سلسلہ ابھی منقطع نہیں ہوا ہے سال2025ء کی پہلی سہ ماہی قسط جنوری کے اختتام پر آئی اور آتے ہی چلی گئی بلکہ پشاور یونیورسٹی کو تو کئی کروڑ کمی کا سامنا بھی کرنا پڑا‘ وجوہات مختلف ہیں یعنی تعلیمی بجٹ کا آٹے میں نمک کے برابر ہونا‘ مہنگائی کی برق رفتار‘ تنخواہ دار طبقے سمیت عوام الناس پر خواص کی طرف سے آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت ٹیکسوں کی بھرمار‘ شاہ خرچیوں یا کم از کم غیر لازمی اخراجات میں کمی لانے کی طرف نہ بڑھنا‘ اپنے ذرائع آمدن برائے نام ہونا ضرورت سے زیادہ سٹاف اور اسی طرح دوسری کئی وجوہات ہیں جو کہ تعلیم بالخصوص جامعات کو اپاہج بنانے کیلئے کافی ہیں دوسری طرف اس ابتری سے بہتری کی طرف جانے کیلئے کوئی سوچ اور احساس ہے اور نہ ہی کوئی منصوبہ بندی ورنہ حالات اتنی گھمبیر حد تک جانے کی بجائے قدرے کنٹرول ہوتے‘ صوبائی حکومت نے اعلان کیا کہ ملازمین کو فروری کی تنخواہیں 28فروری یعنی مہینے کے آخری تاریخ تک دی جائیں مگر یہ محض روایتی طریق کے مطابق اعلان تھا مطلب گرانٹ یعنی پیسے کا کوئی ذکر شامل نہیں تھا لہٰذا جن یونیورسٹیوں کے ملازمین ضرورت کے مطابق اور اخراجات قابو میں تھے انہوں نے تو حکومتی اعلان پر عمل کرتے ہوئے تنخواہیں ادا کر دیں مگر پنشنرز بے چارے ایک بار پھر رل گئے‘ ان میں سب سے زیادہ دیدنی حالت پشاور یونیورسٹی کے ریٹائرڈ ملازمین کی ہے جن کی تعداد کم از کم یونیورسٹی کیمپس کی دوسری تمام یونیورسٹیوں سے زیادہ ہے‘ ویسے اس میں تو کوئی قباحت والا پہلو تو کم از کم مجھے نظر نہیں آرہا کہ پرانی جامعات بالخصوص پشاور یونیورسٹی اخراجات میں کمی لانے کا ایک تجربہ کرلیں ممکن ہے کوئی فلاحی نتیجہ نکل آئے مطلب سب سے پہلے تو وقت ضائع کئے بغیر سولرائزیشن کی طر ف جائیں جس میں جامعات کو نصف لاگت وفاقی حکومت کی طرف سے دی جارہی ہے‘ ساتھ ہی صوبائی حکومت کے سامنے جھولی پھیلانا بھی کوئی نئی اور عجیب بات نہیں ہوگی‘ اسی طرح یہ بھی سوچنا بلکہ کرنا ہوگا کہ کتنی گاڑیوں کو فنکشنل رکھنا ناگزیر ہے؟ پنشن انڈومنٹ کیلئے مالی اور وہ بھی بہت تھوڑی قربانی کی پہل بھی کلاس فور سے لیکر گریڈ 22 تک اپنی تنخواہوں کے حجم کے حساب سے یونیورسٹی ملازمین خود کرلیں پھر دیکھیں کہ حالت میں تبدیلی آتی ہے یا نہیں؟ البتہ ایسا ہر گز نہ ہو کہ جیسے حکومت کفایت شعاری کے دعوے کرتے ہوئے تھکتی نہیں بلکہ اخراجات میں کمی لانے کیلئے کمیٹی بھی تشکیل دی جاتی ہے مگر دوسری طرف وزراء کی فوج ظفر موج والے طریقے کو فروغ دینے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتی میرے نزدیک تو یہ طریقہ چلنے آگے بڑھنے اور قائم رہنے میں بالکل بھی کارآمد ثابت نہیں ہوگا جس طریق پر یونیورسٹیاں بالخصوص قدیم جامعہ پشاور کو چلایا جارہا ہے یعنی وفاقی حکومت کی طرف سے اگر گرانٹ ملی تو کام کچھ اپاہج سا چلے گا ورنہ خیر صلا‘ مطلب تنخواہیں نہیں ہوں گی جبکہ پنشن کا تو نام ہی مت لیں لہٰذا وقت اور ابتر حالت کا تقاضہ ہے کہ گرانٹ کے سہارے جینا چھوڑنا ہوگا ہرچندکہ تعلیم توریاست کے ذمے رعایا کا ایک بنیادی آئینی حق ہے مگر کیا ماضی اور حال سے یہ حقیقت ثابت نہیں ہوئی کہ ریاست اس آئینی ذمہ داری میں ناکام رہی ہے‘ نجات کا واحد راستہ یہ ہوگا کہ اخراجات ممکنہ حد تک کم ہوں اور ذرائع آمدن میں اضافہ ہو ورنہ تعلیم ٹھاہ ٹھاہ‘ مالی ابتری اور ان سے جڑی محرومیاں تو اپنی جگہ اب تو قدیم درسگاہ والے ایک اور مشکل بلکہ آزمائش سے بھی دوچار ہوگئے کیونکہ ایک آدھ معاملہ فہم بہی خواہ کے مشورے کے باوجود جامعہ کے سربراہ نے رمضان کیلئے صبح حاضری کیلئے8بجے اور چھٹی کا ٹائم2بجے مقرر کردیا اب دیکھنا ہوگا کہ ان ملازمین کی فیصدی کتنی ہے جو مقررہ وقت کی پابندی کی آزمائش پر پورا اترتے ہیں؟ بصورت دیگر روزے کے فرض کی ادائیگی کے بارے میں سوچنا بلکہ خود احتسابی ایمان کا تقاضا ہوگا۔
اشتہار
مقبول خبریں
گرانٹ کی بیساکھی۔ کب تک؟
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
جامعات میں اضطراب کی لہر
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
خیبرپختونخوا‘ تعلیم کا مستقبل؟
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
اخراجات کم بھی تو ہو سکتے ہیں!!!
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
احتجاج کے روایتی طریقے لاحاصل؟
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے