خیبرپختونخوا‘ تعلیم کا مستقبل؟

گورکھ دھندے سے دلچسپی رکھنے والوں کے بقول صوبے کی 32سرکاری یونیورسٹیوں کیلئے13بلین بجٹ مختص کرنے کا اعلان ہوا تھا اب سوال یہ ہے کہ صوبے میں یونیورسٹیوں کی اتنی تعداد تو تب مناسب ہوتی جب انتظام و انصرام اور ضروریات پوری کرنے کا کوئی احساس ذمہ داری‘ کوئی منصوبہ بندی اور کوئی میکانزم بھی تو موجود ہوتا‘ بہرکیف چلتے چلتے تھوڑے ہی عرصہ بعد ”کھودا پہاڑ نکلا چوہا“ کے مصداق 13بلین روپے تین بلین ہوگئے اور پھر تین میں سے ایک ارب روپے کی فوری فراہمی کافیصلہ اور ہدایت کی گئی مگر نہ جانے کہ آتے آتے وہ گرانٹ کہاں پر پھنس گئی؟ اب حالت یہ ہے کہ پشاور یونیورسٹی کیمپس میں اسلامیہ کالج کے علاوہ جہاں پر ریٹائرڈ ملازمین کی تعداد نہ ہونے کے برابر اور حاضر سروس کیمپس کی باقیماندہ تین یونیورسٹیوں سے کافی کم ہے لہٰذا وہاں پرتاحال تنخواہ اور پنشن کے مسئلے نے سر نہیں اٹھایا اور بجٹ اضافہ جات کے بقایا جات بھی صفر ہیں لیکن دوسری یونیورسٹیوں کی حالت دیدنی ہے بالخصوص پشاور یونیورسٹی جہاں پر ایک عرصہ سے تنخواہ اور پنشن تاخیر سے ملنے کا سلسلہ چلا آرہاہے اس میں اسلامیہ کالج کے دو سو سے زائد ریٹائرڈ ملازمین کو بھی ماہانہ کروڑوں روپے دیئے جارہے ہیں کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو پشاور یونیورسٹی کے کالج سے ریٹائرڈ ہوچکے ہیں یعنی سال2008ء سے قبل کی بات ہے کیمپس کی دوسری تین جامعات نے ان سطور کے لکھنے تک جنوری کی تنخواہیں اور پنشن بڑی مشکل سے دی تھیں کیونکہ بقول ان کے پیسے نہیں ہیں اور وفاقی سہ ماہی گرانٹ جنوری کے آخر یا فروری کے اوائل میں متوقع تھی اب رہی صوبائی گرانٹ کی پہلی قسط کا چکر تواس بارے میں جامعات کی انتظامیہ بھی کچھ کہنے سے قاصر نظر آتی ہے ویسے مذکورہ قسط چند ایک یونیورسٹیوں کو ملنے کی بات کہی گئی مطلب صوبے کی پرانی بدحال یونیورسٹیاں جن کا مستقبل ایک سوالیہ نشان بنتا جارہا ہے؟ اصل وجہ یہ ہے کہ منصوبہ بندی ہے اور نہ ہی کوئی دلچسپی جبکہ کفایت شعاری کا تو دور دور تک کوئی نام و نشان نظر نہیں آتا ورنہ جس ادارے کے پاس ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن کیلئے پیسے نہ ہوں وہاں پر درجنوں گاڑیوں کے گھمانے پھرانے کی کیا ضرورت؟ پنشن انڈومنٹ فنڈ کا محض نام لیا جارہا ہے درحقیقت اس جانب تاحال جامعات کی انتظامیہ فیکلٹی نان ٹیچنگ سپورٹنگ سٹاف اور نہ ہی سرکار نے کوئی قدم اٹھایا ہے اور نہ ہی ایسا کوئی ارادہ محسوس کیا جارہا ہے کچھ عرصہ قبل جامعات کے بقول یہ مژدہ سنے میں آیا کہ صوبے کی حکومت نے جامعات کی پنشن کے بوجھ کو اپنے ذمے لینے کا ارادہ کر لیا ہے اور منصوبہ سازی کی غرض سے جامعات سے پنشن کی تفصیلات بھی طلب کرلی گئی ہیں؟ مگر اب ایسا لگتا ہے کہ سرکار کا ارادہ غالباً عملی جامہ پہننے سے قبل ہی سردخانے کی نذر ہوگیا ہے؟ جہاں تک پرانی جامعات کی مالی پوزیشن کا سوال ہے تو چاہئے تو یہ تھا کہ صوبے کی چار پانچ پرانی یونیورسٹیاں اپنے ذرائع آمدن اور کفایت شعاری کی بدولت مالی طورپر خود کفیل ہوتیں مگر کیا کریں کہ ہم لوگ محض شاہ خرچیوں‘ کام چوریوں اور اپنی مرضی کی چھٹیوں میں خود کفیل ٹھہرے ہیں اور جب ایسا ہی ہے تو پھر یہ بات ذہن نشین ہونی چاہئے کہ ہماری تعلیمی بدحالی کو آسودہ حالی اور پیش رفت میں تبدیل کرنے کوئی بھی باہر سے نہیں آئے گا‘ جامعہ پشاور سمیت پشاور اور صوبے کی دوسری قدرے پرانی یونیورسٹیوں پر اس وقت جو مالی اور انتظامی ابتری مسلط ہے اسے دیکھتے ہوئے ہرباشعور معاملہ فہم اور عاقبت اندیش فرد کے ذہن میں اس سوال کا اٹھنا ایک قدرتی امر ہوگا کہ آیا خیبرپختونخوا کی جامعات مستقبل قریب تک چلنے اور قائم رہنے کے قابل رہ جائیں گی؟ ایسے میں پشاور یونیورسٹی کی اساتذہ تنظیم کے زیر اہتمام پشاور کی یونیورسٹیوں نے حال ہی میں حکومت سے صوبائی اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے قیام‘اساتذہ کی ترقیوں کے مسئلے کے قواعد کے تحت فوری حل‘ مستقل وائس چانسلروں کی تقرری اور صوبے کی یونیورسٹیوں کیلئے کم از کم 50ارب روپے بجٹ مختص کرکے اس کے منصفانہ اور فوری اجراء کے مطالبات ایک بار پھر دہرائے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومتی ردعمل یا جواب کیا ہوگا؟۔